فضل رازق شہابکالم

سینے سے گھٹا اُٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے

آج کل میں کھانسی کی شدت سے کافی پریشان ہوں۔ ڈاکٹر عبدالمنعم خان گذشتہ دو ہفتوں سے میرا نہایت تندہی اور توجہ سے علاج کر رہے ہیں۔ چلنے پھرنے سے اور گرد و غبار سے بچنے کی ہدایت پر سختی سے عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ زیادہ وقت ’’آبِ گم‘‘ اور فیس بک پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔ اسی تگ و دو جس میں نہ تگ ہے اور نہ دو بلکہ بیٹھے یا لیٹے ’’مشقِ سخن‘‘ جاری ہے۔ فیس بک کے صفحے پر ایک دبنگ قسم کی شخصیت سے اتفاقاً مڈبھیڑ ہوئی۔ پوچھا: ’’جناب کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘، ’’وزیر آباد‘‘ جواب آیا۔ اچانک ایک دیرینہ ساتھی اور رفیقِ کار کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ پوچھا: ’’دلدار خان کو جانتے ہو؟‘‘، ’’ہاں، اپنے ہی خاندان کے تھے۔‘‘، ’’آپ کا اُن سے کیا رشتہ ہے؟‘‘، ’’جی میں کرنل عبدالغفار مرحوم کا پوتا ہوں۔ دلدار خان کے والد عبدالجبار خان اور میرے دادا بھائی تھے۔۔۔!‘‘ میں عبدالستار خان کی بات کاٹتے ہوئے بولا: ’’دلدار خان کیسے ہیں؟‘‘ ، ’’جی اُن کا تو 2012ء میں انتقال ہوا تھا۔‘‘ اور بقول مشتاق احمد یوسفی، یادوں کا دریا بہتے بہتے خواب سراب کے آبِ گم میں اترتا چلا گیا۔
سال 1974ء کو ہم ڈگر میں اپنا تیسرا سال پورا کررہے تھے اور ابھی مجھے مزید دس سال بونیر کا آب و دانہ کھانا تھا۔ ہمارے آفس میں ایک نووارد نے اپنی آمد کی رپور ٹ درج کرائی۔ معقول شخصیت کے مالک لگ رہے تھے۔ نام اپنا بتایا دلدار علی خان۔ میں نے سکونت پوچھی، جواب دیا وزیر آباد درگئی۔ اپنے والد کا نام عبدالجبار خان بتایا ہی تھا کہ میں نے اُن کے دادا ’’احمد علی خان‘‘ کا نام لیا۔ ہنس کر کہنے لگے، تم تو میرے پورے خاندان کو جانتے ہو۔ عرض کیا کہ آپ کا خاندان ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کے کسی حصے سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
دلدار علی خان ریاستِ سوات کے آغاز، قیام اور استقلال و استحکامِ ریاست میں اہم کردار ادا کرنے والے وزیراعظم حضرت علی خان کے چھوٹے بھائی یعنی کشر وزیر احمد علی خان کے پوتے اور عبدالجبار خان انسپکٹر آف سکولز کے بیٹے تھے۔ ننھیال اُن کا خان بہادر سلطنت خان آف جرہ کے طاقتور خاندان سے تھا۔ بقول کسے ’’نجیب الطرفین‘‘ لڑکے تھے۔ وہ بہت سادہ مزاج تھے۔ چالاکی و عیاری سے دور، لگی لپٹی بغیر اپنا مافی الضمیر کہنے والے۔ ہم اکٹھے ڈگر کالج کالونی کے ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ ساتھ رہنے سے تکلف کے پردے اُٹھنے لگے اور ’’ابے تبے‘‘ سے گفتگو ہونے لگی۔ ہر بات میں اُن کا تکیہ کلام تھا ’’او دغہ‘‘ افسر کسی بات پر ٹوکٹے، تو کہتے، جی میں نے تو اس ٹھیکیدار کو سمجھایا تھا او دغہ۔
ایک دفعہ جب انہوں نے کئی بار ’’او دغہ‘‘ کہا، تو میں نے ٹوکا: ’’او دغہ کیا، آگے بھی تو کچھ بولو۔‘‘ کھیسانے سے ہوگئے لیکن اپنا تکیۂ کلام ترک نہ کیا۔ اسی کا سہارا لے کر سخت سے سخت باز پرس کی دھجیاں اُڑاتے۔ پھر اُس کی شادی ننھیال میں کرادی گئی۔ شادی کے لیے ایک ہفتے کی چھٹی ملی تھی، دو مہینے بعد حاضری دی۔ ایس ڈی او نے سرزنش کی، تو بولے: ’’ما خو ڈیر کوشش اوکو او دغہ‘‘ اور جاکر اپنے کمرے میں بیٹھ گئے۔
وہ اپنی بیوی کے ساتھ پشاور میں رہنے لگے تھے۔ غالباً 1939ء میں اُن کے دادا بھائی حضرت علی خان وزیر اعظم ریاستِ سوات نے پشاور میں جی ٹی روڈ پر ایک لمبا سا گھر بنوایا تھا۔ اُس کے دروازے کے ایک جانب سنگ مرمر کا ایک چوکور بورڈ نصب تھا۔ اُس پر کندا کیا ہوا لکھا تھا: ’’آستانۂ خان بہادر حضرت علی خان وزیراعظم ریاست صوات۔‘‘ اس وقت سوات ’’ص‘‘ سے لکھا جاتا تھا۔ مجھے یہ بورڈ یا تختی اس لیے یاد ہے کہ جب موصوف ایک دو روز کے بہانے گھر جاتے اور کئی دن گزر جانے کے باوجود نہ آتے، تو میں ان کو لینے کے لیے پشاور جاتا۔ اُسے گھر سے نکلواکر ڈگر آتے، تو ’’او دغہ‘‘ میں سب کچھ اُڑا دیتے۔
مجھے پشاور بہت پیارا لگتا تھا۔ رات کے دو بجے ہم فردو س سے آخری شو دیکھ کر نکلتے اور پیدل گلیوں گلیوں خیبر بازار کے کامران ہوٹل میں رات کا باقی حصہ گزارتے۔
پھر دلدار خان کا تبادلہ سیدوشریف ہوا اور میں بھی چند روز بعد وہاں آگیا۔ یوں ہمارا دوسرادور شروع ہوا۔
یہاں بھی اُن کی وہی عادتیں رہیں۔ بعدمیں وہ اَپر دیر میں ایس ڈی او ہوگئے اور اس کے بعد ہماری ملاقات ہی نہ ہوسکی۔ آخری بار ہم شاید 1987ء میں ملے تھے، لیکن ہمارے دلوں میں باہمی محبت میں کمی نہیں ہوئی اوراب اُن کے ایک خاندانی رشتہ دار بلکہ بھتیجے نے اُن کی رحلت کے بارے میں بتایا۔ مجھے دھچکا سا لگا۔ ہمارے گروپ میں ایک اور ہم سفر بچھڑ گئے تھے۔ اب صرف میں اور عبدالرؤف طوطا باقی ہیں۔ دیکھئے پہلے کس کی باری آتی ہے، کس کا بلاوا آتاہے اور کون یادوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے؟
آج کل ہم دونوں ایک مشترکہ بیماری یعنی سینے کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ اُن کا علاج اسلام آباد میں جاری ہے اور میں یہاں پر زیرِ علاج ہوں۔ شوکت تھانوی کی کتاب ’’قاضی جی‘‘ کا مشہور کردار بلکہ ہیرو جب کسی کی موت کا ذکر کرتا ہے، تو
’’آج وہ کل ہماری باری ہے‘‘
کے بجائے کہتے ہیں: ’’گویا کل بھی کسی کی باری آسکتی ہے۔‘‘ ہم بھی یہی کہنے والے ہیں کہ دلدار خان چلے گئے، کل بھی کسی کی باری آسکتی ہے۔ میری یا رؤف طوطا کی۔ بقول ابن انشاؔ
سینے سے گھٹا اُٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے
پھاگن کا نہیں بادل جو چار گھڑی بر سے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، برسے تو بڑی برسے
دروازہ کھلا رکھنا

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں