ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

صاحب میٹنگ میں مصروف ہے

میٹنگ کی اِفادیت سے انکار ممکن نہیں۔ کسی ادارے کا انتظامی ڈھانچا مقرر کرتے ہوئے قانونی ماہرین اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کون سے کام کو کب اور کس طریقے سے سر انجام دینا ہے؟ ہاں، البتہ بعض ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں واضح طور کوئی قانون نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے لیے ادارتی مشاورت لازمی ہوتی ہے۔ کئی ادارے اپنے کام کو چلانے کی خاطر اپنے رولز کسی خاص قانون کے تحت بناتے ہیں، جن پر بعد میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کے اہلکار اپنے قانون اور رولز کے پابند ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ چلا آیا ہے کہ عموماً صارف کو انتہائی ہتک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کو معلومات دی جاتی ہے اور نہ ہی درخواست کو دیکھا جاتا ہے۔ فائل کو سرد خانے کی نذر کیا جاتا ہے یا سرے سے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ درخواست کنندہ کی درخواست کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ ان حالات میں ادارتی اعلیٰ عہدے اور کرسی پر براجمان شخص فرعون نما بن جاتا ہے اور کسی کو انسان سمجھتا ہی نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ میٹنگ سے انقلاب آجائے گا۔ کوئی بھی ادارہ غیر ضروری میٹنگز سے فارغ نہیں۔ہر سیاسی پارٹی کے سربراہان کی کل وقتی میٹنگیں جاری رہتی ہیں، مگر سمینارز، ورکشاپس، کنونشنز اور تقریبات ان پر مستزاد۔
ماتحت سرکاری افسران کے علاوہ ناظر، قاصد، چوکیدار، چپڑاسی، مالی، خاکروب، بھنگی وغیرہ بھی انسان ہوتے ہیں، ان کی عزت اور توقیر برابر ہوتی ہے۔ بالا افسران عام افراد کے علاوہ اپنے ماتحتوں سے بھی اچھے طریقے سے بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ معمولی گپ شپ اور کھانا کھاتے ہوئے بھی عار محسوس کی جاتی ہے۔ ان پر زبردستی کرتے ہوئے جھوٹا رعب جمایا جاتا ہے۔ انہیں برخواست کرنے اور تنخواہیں بند کروانے کی دھمکی دی جاتی ہے اور بعض اوقات ان کے ساتھ بڑی بد سلوکی کی جاتی ہے۔ عام افراد کی بد دعائیں لی جاتی ہیں۔ غریب ماتحتوں کے پیٹ پر لات ماری جاتی ہے۔ افسر کی بات نہ ماننا ایسا ہوتا ہے جیسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا جائے ۔ پھر کوئی معذرت، کوئی فریاد نہیں سنی جاتی۔
مسلمان ہوتے ہوئے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر کسی سے اس کے اہل و عیال اور ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
صورتحال مگر یہاں برعکس ہے۔ کنزیومر صارفین یا کسی سروس کی انجام دہی کی خاطر صارف ادارے میں جاتے ہیں تو اکثر ان کے لئے مسائل پیدا کئے جاتے ہیں ۔ صارف کی اپنی بے خبری بھی مسائل پیدا کرتی ہے ۔ لیکن نہ تو قانونی طور کوئی ادارہ آپ کی مدد کرتا ہے اور نہ کوئی ہمدردی دکھاتا ہے ۔ صارف جہاں بھی جائے،اسے وہاں سرکار صرف میٹنگ میں مصروف نظر آئے گی۔’’ صاحب ‘‘ یعنی ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ہمیشہ دیرسے آئے گا تو دوسری طرف، آنے کے بعد سول سوسائٹی اور دیگر افسران کے ساتھ میٹنگ میں مصروف نظر آئے گا۔ مرکزی دارالخلافہ ہو، صوبائی دارلخلافہ یا کوئی سیکرٹریٹ ، ہر وقت میٹنگز ہی میٹنگز ہوتی ہیں۔ پتا نہیں ان میٹنگز میں یہ کیا کچڑی پکھاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میٹنگ انتہائی ضروری ہوتی ہے ۔جیسے میں نے پہلے ہی کہا کہ میٹنگ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ خاص کر ایمرجنسی میں تو اس کی ضرورت دگنی ہوجاتی ہے ۔ اب یہ ہر وقت میٹنگز میں کیا بات ہوتی رہتی ہے، یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔ حکومت نے کام اور سروس کرنے کے لئے طریقۂ کار وضع کیا ہے جبکہ سب اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ ہسپتال، تھانہ کچہری میں کیا ہوتا ہے؟ ہر دوسرے تیسرے دن ہڑتال اور پھر میٹنگ پر میٹنگ۔یہ تو وہی صورتحال ہوئی کہ اپنے افسران بالا کو خوش کرنے کے لئے فائلوں کی لسٹیں بناؤ ، میٹنگ منٹ بناؤ ، کام کے لئے اضافی وقت اور پیسہ مانگو اورکوئی کام نہ کرو بس مفت میں پیسے کھاؤ۔ دراصل قانونی طور پر سرکاری افسر عوام کا خادم ہوتا ہے ۔ لیکن عملاً صورتحال اس کے بالکل مختلف ہے ۔ سرکاری افسران عام افراد اور ماتحتوں پر رعب جماتے ہیں۔سر عام رشوت، میرٹ کی پامالی، ریڈ ٹیپ ازم اورکرپشن عام ہے۔ اگرچہ کسی کام کی انجام دہی کے لئے قانون نے کوئی خاص وقت متعین کیا ہوتا ہے ، لیکن رشوت اور سفارش سے کام جلدی ہوجاتا ہے اور سفارش یا بھتہ نہ دینے کی صورت میں وہی عام فرد پھنس جاتا ہے ۔ دوسری طرف ایک مہینے میں ایک قانون اور دوسرے میں وہی قانون تبدیل ہوچکا ہوتا ہے ۔محکمۂ تعلیم ہویا محکمۂ نادرا، پٹواری ہو یا پولیس، سب کے ساتھ عام یا خاص بات کرنا بھی اکثر مشکل ہو جاتا ہے ۔سی این ڈبلیو، بجلی، سوئی گیس اور ایکسائز وغیرہ کا تو پوچھے ہی مت۔
میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری آفیسر عوام کے ٹیکسوں پر تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔ اس لئے انہیں عوام کا خادم کہا جاتا ہے ۔ پہلی فرصت میں سرکاری آفیسر کو اپنے منصب اور قانون کے مطابق انصاف اور برابری کے ساتھ سہولیات فراہم کرنی چاہئیں ۔ نا کہ مالدار اور بااثر شخصیات کے خلاف غریب کو کچل دیا جائے اور یا اس کی حق تلفی کی جائے ۔ سرکاری اوقات میں اوّلین حیثیت کام کو دینی چاہئے ۔ اگر دیگر کوئی مسئلہ ہے تو مناسب یہی ہے کہ دفتری اوقات کے بعد ہی اس کو ڈسکس کیا جائے اور اس پر میٹنگ کی جائے ۔ کسی بھی دیگر محکمے کے ساتھ میٹنگ کرتے وقت اپنے ماتحت افسران کو اختیارات تفویض کرنے چاہئیں تاکہ انصاف اور دادرسی کی فی الفور ترسیل جاری و ساری رہے ۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں