روح الامین نایابکالم

منگلور بنجوٹ بائی پاس روڈ 

’’منگلور بنجوٹ بائی پاس روڈ‘‘ کو اب روڈ کہنا ایک طرح کی غلط بیانی معلوم ہوتی ہے اور ساتھ شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اب یہ روڈ آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے مراد سعید صاحب نے اس کا افتتاح کرکے اور تقریباً ایک کلومیٹر اسے بنوا کر باقی زبانی وعدوں پر اکتفا کیا۔ اس کے بعد موصوف منگلور میں کہیں نظر نہیں آیا۔
اس طرح جب سرداری روڈ پر ایک کلومیٹر کنکریٹ کا کام ہو رہا تھا، تو موقع پر موجود صوبائی رکنِ اسمبلی جناب عزیز اللہ گران نے ایک بار پھر بائی پاس روڈ بنانے کا وعدہ فرما دیا۔ عوام کو امید دلائی، تسلیاں دیں، لیکن افسوس یہ سب وعدے بھی سراب ہی ثابت ہوئے۔
قارئین کرام! موجودہ حکومت کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ وہ وعدوں کے خوشنما نعروں میں جھوٹ کی آمیزش کرکے ایک عجیب سا سماں باندھ لیتے ہیں، جس کا سحر کافی عرصے تک عوام کو بہلائے رکھتا ہے۔ یہاں بھی یہ فارمولا آزماتے ہوئے اکتوبر 2016ء میں جب وزیراعلیٰ نے بلوگرام کے جلسۂ عام میں منگلور بنجوٹ بائی پاس روڈ بنانے کا اعلان کیا، تو متعلقہ عوام کی خوشی کی انتہا تھی۔ اس طرح کافی عرصہ لوگ اس وعدے کے سہارے جیتے رہے اور ایک طرح سے خوش فہمی میں مبتلا رہے۔ کیوں کہ بقول وزیراعلیٰ کے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ لیکن افسوس یہاں بھی حسبِ توقع وزیراعلیٰ صاحب نے اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھا اور عوام مایوس ہوگئے۔
منگلور بنجوٹ بائی پاس روڈ اب ایک اہم شاہراہ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس سڑک پر بنجوٹ منگلور کے علاوہ سور بنڑ، سرسردارے، گداکوٹ، ودانہ گورتئی، ورانہ گورتئی، ملا پٹے، دیوان بٹ، اشار گھڑی، ملائی، سمتیر، کڈونہ، مولادے، کالکٹہ، گولام اور چنگال جیسے علاقوں کے ہزاروں عوام کے نقل و حمل کا دارومدار ہے۔ سکولوں کے سیکڑوں بچے اسی سڑک سے روزانہ آتے جاتے ہیں، لیکن روڈ کی خستہ حالی اور بے شمار کھڈوں نے عوام کا آنا جانا مشکل بنادیا ہے بلکہ ایک طرح سے جینا دوبھر کردیا ہے۔ اس سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کا تھوڑے ہی عرصہ میں کباڑا ہوجاتا ہے۔ مریضوں کا تو برا حال ہوتا ہی ہے ، اچھا خاصا بندہ مریض بن جاتا ہے۔
آخرِکار تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام کے نمائندوں نے اس بارے میں ایک عوامی جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے ولیج کونسل کے ناظم رحمت زیب، نائب ناظم انور خالق، جنرل کونسلرز رفیع اللہ، جہان ملک اور سماجی سوشل کارکن فضل واحد صاحب کی کوششوں سے بائیس جنوری کو ایک نمائندہ جرگے کا اجلاس ہوا۔ اُسی دن مذکورہ نمائندہ جرگے کے ارکان نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملاقات کی اور اُنہیں اپنی گذارشات سے آگاہ کیا۔ کمشنر صاحب نے پوری دلجمعی کے ساتھ اس عوامی مسئلے میں دلچسپی لی اور جرگے کی لکھی ہوئی درخواست پر اپنا خاص نوٹ لکھ کر جناب اے سی صاحب سے مزید معلومات لینے کی ہدایت کی۔ اے سی صاحب سے ملاقات کے دوران میں یہ خوش فہمی پیدا ہوئی کہ اس روڈ کی اے ڈی پی منظور ہوچکی ہے اور اس کے لیے پینتیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، لیکن جب اے سی صاحب کے کہنے پر جرگہ کے ارکان تصدیق کے لیے ایکسین صاحب کے متعلقہ دفتر میں چلے گئے، تو یہ خوش فہمی دور ہوگئی کہ وہ اے ڈی پی اور منظور شدہ رقم تو بنجوٹ سے آگے سر سرداری روڈ کے لیے ہے۔ بنجوٹ منگلور بائی پاس روڈ کا تو اس میں نام و نشان تک نہیں۔ لہٰذا جرگہ مایوس اور ناکام و نامراد واپس ہوا۔ یوں ممبرانِ اسمبلی کے دعوؤں اور وزیراعلیٰ کے جھوٹے وعدوں کا پول کھل گیا۔ عوام کو دھوکے میں رکھا گیا اور اس روڈ کی قسمت بھی دنگرام روڈ سے کچھ مختلف نہیں۔
اس رام کہانی کو لکھنے کامقصد یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے محترم نمائندگان عوام کو دھوکے میں نہ رکھیں اور نہ جھوٹے وعدے کرکے عوام کے معصوم احساسات اور جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں۔ عوامی نمائندوں کے ساتھ عوام کے پاس دوبارہ جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسے کردار اور اخلاق اپنائے جائیں کہ وہ ہر وقت عوام کے سامنے سر خرو ہوں، نہ کہ بعد میں شرمندہ ہوں۔
میں موجودہ حکومت کے نمائندوں سے درخواست کروں گا کہ اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ نازک صورتحال اختیار کرے اور عوام احتجاج پر مجبور ہوجائیں، وہ عوام سے بالمشافہ ملیں، اس دیرینہ مسئلے کے بارے میں اپنی وضاحت کریں اور صاف و شفاف صورتحال سے عوام کو آگاہ کریں۔ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ روڈکے متعلقہ ذمہ دار افسران اور عہدیداران بھی اس مسئلے کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور خلقِ خدا کی فریاد کو اپنی خاص سرکاری گزرگاہوں سے احکام بالا کی ایوانوں تک پہنچائیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں