ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

میڈیائی حقیقت

آج کل میڈیا کا دور دورہ ہے۔ آئینی اور قانونی حدود وقیود کے اندر آزاد�ئاظہارِ رائے اورمعلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ کسی بھی شخص کو اپنا سیاسی اور مذہبی بیانیہ (قانونی پابندی کے تابع) پہنچایا جاسکتا ہے۔ میڈیا کو نئے دور میں قانون ساز، ایگزیکٹوز اور عدالت کے بعد اہم ستون مانا گیا ہے۔ میڈیا میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا فیس بک ، ٹوئٹر ،لنکڈ اِن، گوگل پلس اکاؤنٹس اور خبروں کی ویب سائٹس کا دور ہے۔ شام کو ایک خیا ل آپ کے ذہن میں ڈال دیا جائے گا۔ شائد یہی ایک پروپیگنڈا ہو، اور رات اسی خبر، معلوما ت اور خیالات کو میڈیا کے ذریعے سے یا تو غلط ثابت کر دیا جائے گایا سرے سے اس کو تبدیل کردیا جائے گا۔ ہمارا اپنا کوئی تجزیہ یا سوچ بے کار ہے۔ ساری معلومات انہی میڈیائی وسیلوں سے آتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا زمانہ تقریباًختم ہونے جا رہا ہے۔ یہی سہولیات موبائل اور لیپ ٹاپ میں ہر کسی کو میسر ہیں۔ کسی بھی خبر کی تصدیق جان جھوکوں کا کام ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بول کر سچ کو دبیز پرودوں میں دبایا جاتا ہے۔ ا ب اگر آپ کو سچ معلوم بھی ہے، تو کوئی آپ کا سچ سننے کا خواہاں نہیں ہے بلکہ ا لٹا آپ پر ’’دقیانوس‘‘ ہونے کا مہر چسپاں کردیا جائے گا۔ حکومتی طور پرادارہ ’’پیمرا‘‘ کے ذریعے میڈیا ہاؤسز کو کنٹرول کیاجاتا ہے اور اس کے لیے حالات کے موافق حکومتی پالیسی کی تشکیل کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
قارئین، دراصل میڈیا دو دھاری تلوار ہے۔ اس سے کسی ملزم یا ادارے کا بچاؤ ممکن نہیں ہے۔ اس کے خلاف یا تائید میں ایزادگی اور کمی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح ایک بے گناہ فرد کو بھی پھنسایا جاسکتا ہے۔ تھانہ کچہری میں اس کی پیشیاں اس لیے ہوں گی کہ اس کا نام میڈیا میں اچھالا گیا ہے۔ان حالات میں میڈیا بروقت ذمہ داری اور غیر ذمہ داری کا آئینہ دار ہے۔ آج کل کسی کے خلاف بلا کسی تحقیق اور بغض میں الزام لگانا ہو، تو میڈیا ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہواہے۔ صحافی کی دشمنی وبالِ جان بن سکتی ہے۔ سوشل میڈیا نے تضحیک اور بدنام کرنے کا کام مزید آسان کر دیا ہے۔ کسی بھی شخص کی وڈیو بنا کر اور یا اس کی خبر کو توڑ مروڑ کر اس کے خلاف اپنے یا کسی گروپ کی وال پر لگایا دیاجاتا ہے اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے سامنے وہ مفت میں ذلیل ہو جاتا ہے۔ کسی حد تک ہرایرا غیرا نتھو خیرا صحافی، شاعر، ڈاکٹر، حکیم، دانشور، انجینئر، قاضی اور وکیل بنا پھرتا ہے اور غیر ذمہ داری کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے کسی بھی غیر متعلقہ ایشو پر بغیر مانگے اپنا مشورہ یا رائے دیا کرتا ہے۔ اس طرح کسی سے مشورہ مانگے بغیر بھی آپ کو مشوروں کے انبار ملتے ہیں۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ ہمارے آج کی نشست صرف میڈیائی حقیقت سے پرد ہ اٹھانا ہے۔
صحافت ایک بڑا اور مقدس پیشہ ہے۔ ہر خبر کی تصدیق کرکے اس کو بعد از تحقیق پرنٹ ا ور الیکٹرانک میڈیا پر شائع کیا جاتا ہے، لیکن یہاں معاملہ کچھ الگ ہے۔ریٹنگ کے لیے کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی کو جہنم بنانے میں صرف لمحہ بھر کا فرق ہوتا ہے۔ میڈیا پر بلاوجہ کسی پرالزام تراشی اور بہتان لگانے سے کسی فرد کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ہونا تویہ چاہیے کہ صحافی اور میڈیائی اینکرز اور دانشور مکمل تحقیق کے بعد کسی خبر کو نشر کریں نہ کہ سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اکثرحالات میں میڈیا حقیقت کا ایک رُخ پیش کرتا ہے جب کہ دوسری طرف حالات و واقعات اس کے بر عکس ہوتے ہیں۔ بعض اوقات خبر کی اتنی تفصیل پیش کی جاتی ہے کہ ایک عام ذہن تذبذب کا شکار ہونے لگتا ہے۔تائید اورمخالفت کی اتنی لمبی فہرست کہ الامان و الحفیظ۔میرے مطابق میڈیائی حقیقت کی بنیادی وجوہات خبر پر دو مختلف فریقین کی آرا اور تجاویز ہوتی ہیں اور باقی کسر دانشور حضرات پورا کردیتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ دوسری طرف والا یعنی عوامی درمیان کا طبقہ اس کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس سے اگر ایک طرف کسی مقدمے میں تفتیش متاثر ہوتی ہے، تو دوسری طرف عدالت بھی اس کا اپنا اثر لیتی ہے۔یہ بات کسی حد تک صحیح ہے اور مروجہ نظام تعلیم اور میڈیائی معلومات کاشاخسانہ ہے کہ کسی بھی نظریہ، آرا اور نکتۂ نظر پر دو ہی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک تائیداور دوسرا اس کے برخلاف۔ یہ بھی یقینی ہوتا ہے کہ ہر ایک اپنی آرا اور نظریہ کو درست مانتا ہے اور اس کے درست ماننے پر اصرار کرتا ہے جبکہ کسی دوسرے کی آرا اور نظریات کو باطل اور غلط ٹھہراتا ہے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ برداشت کی جگہ عد م برداشت، مکالمہ اور دلیل کی بجائے بحث اور تکرار لے لیتی ہے۔ اس وجہ سے ہر وقت جھگڑے اور فساد کاخطرہ موجود ہوتا ہے ۔
قارئین، حقیقت یہ ہے کہ پرائیویٹ میڈیا ہاؤسز کاروباری ادارے ہیں، جنہیں اپنے کاروبار میں ترقی چاہئے ہوتی ہے۔ اس کے لیے کسی کی عزت اور وقار داوؤ پر لگے تو لگے، ان کی بلا سے۔ پولی ٹیکل پارٹیوں سے لاکھوں روپے کے اشتہار لے کر دوسرے فریق پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ کسی اہم ایشو، میگا پراجیکٹ اورعوامی دیرینہ مسائل کو ’’سیاست زدہ‘‘ اسی میڈیاکے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ بعض اوقات مذکورہ میڈیا ہاؤسز غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کو چلاتے ہیں اور اُن کے کام اور مقاصد کو آسان بناتے ہیں۔
میڈیا اگر ایک طرف شعور اور آگہی کے لیے موزوں پلیٹ فارم ہے، تو دوسری طرف اس سے بے راہ روی، افراتفری، انتشار اور فتنہ و فسادپھوٹتے ہیں۔ دہشت گردی کا سد باب ایک طرف پولیس اور عدالتوں تک کے فیصلوں پر اثر انداز ہو جاتاہے۔
ہر خبر کو مختلف قسم کی آوازوں، خبر کو موسیقی کی گونج اور بڑھک سے بریک کرکے معاشرے میں سنسنی پھیلائی جاتی ہے۔ ’’ذرائع‘‘ کا کہہ کر مبہم ٹیکر لگا دیا جاتا ہے۔ میڈیا میں کاروبار ی مقاصد کے لیے کسی پروڈکٹ کی تشہیر کرکے ناظرین کو بے کا ر میں راغب کرنے کے لیے اشتہار چلائے جاتے ہیں۔ اس طرح مال کو بیچا جاتا ہے۔ اس سے سروکار نہیں ہوتا کہ کون سی کمپنی کیا بیچ رہی ہے؟ بس اشتہار ہی کے دم خم سے میڈیا قائم و دائم ہے۔ منسٹر صاحبان کی آؤ بھگت کر کے لاکھوں کروڑوں کے حکومتی اشتہارلیے جاتے ہیں۔’’صاحب‘‘کی خوشامد اورتعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ ان کو میڈیم فراہم کرتے ہوئے اس کے لئے خاص پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں۔ میری دانست میں آج کل کا المیہ ہی یہ ہے کہ معلومات اتنے وافر مقدارمیں قاری کو انٹرنیٹ، اخباروں اور کتابوں کے وسیلے سے ملتی ہیں کہ جس سے خود قاری پریشان ہوجاتاہے اور اس کو مطلوبہ نتائج کو پرکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے لیے صحیح اور غلط کا معیار مقرر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ میڈیا ہاؤسز اور اظہارِ آزادیِ رائے پر غیر ضروری پابندی ہونی چاہئے بلکہ اس کے لیے مؤثر قانونی طریقہ کارہونا چاہے۔ کسی خبر کی تصدیق کے لیے ایک ادارے کا وجود ناگزیر ہوچکا ہے۔ تصدیق شدہ اخبارات کی فہرست کو ماہانہ الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا پر چھاپناچاہئے۔ قانونی طور پر کسی بھی غیر ضروری اور تخریبی خبر اور مواد کو چھاپنے والے اینکر پرسن اور دانشور وغیرہ کو الٹی میٹم دیا جانا چاہئے اوربعد ازاں دوبارہ اس قسم کی حرکت پراس کو جرمانہ کرکے اس کے خلاف مقدمہ اور چالان کیا جانا چاہیے۔ البتہ اس کو صفائی کا موقعہ دیا جانا چاہئے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ میڈیاپرآکر اپنی صفائی پیش کرے بلکہ ہونا چاہیے کہ مروجہ قانونی طریقۂ کارکے مطابق اس اینکرپرسن، دانشور اور میڈیا کے مالک کو عدالت سے اپنی صفائی کے متعلق ڈگری لینی ہوگی۔ اس قسم کے بیانات کو نشر کرنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے جس سے کسی ادارے اورکسی عام یاخاص فرد کی توہین کا مطلب نکلتا ہو۔ میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اداروں کو یوں ہی شتر بے مہارچھوڑ دیا جائے اور اس کو غلط کام کرنے کھلی چھوٹ دی جائے بلکہ میرا مانناہے کہ متعلقہ محکمہ میں اس آفیسر اور ادارے کے طریقۂ کار ، واردات کے خلاف شکایت درج کرانی چاہیے اور بعد از مکمل جانچ پڑتال،فیصلہ کو نشر کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی فرد اور ادارے کی تضحیک اور بلیک میلنگ کے علاوہ پرائیویسی اور کاپی رائٹ کے تحفظ کے برخلاف اور کسی بھی خبر کی تصدیق کے لیے سخت سے سخت قانون بنانا چاہئے۔
سنسنی اور انتشار پھیلانے والے میڈیا ہاؤسز پر پابندی لگانی چاہیے ۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں