ستائیس جنوری کو ’’خادی حال‘‘ میں ایک بھر پور رنگا رنگ پروگرام نے سوات کی رنگینیوں اور خوبصورتی میں اپنی ایک تاریخ رقم کر دی۔ سوات یوتھ کلچر میلہ کے نام سے منعقدہ اس خوبصورت اور شاندار پروگرام کو سوات سپورٹس آفس اور کلچر ڈیپارٹمنٹ نے ترتیب دیا تھا جس کے روحِ رواں ضلع سوات کے کلچر چیئر پرسن محترمہ نسیم اختر خان اور ضلعی سپورٹس آفیسر جناب عبدالسلام صاحب تھے۔ یہ دونوں شخصیات اور ان کے معاونین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کرکے سوات کے شاعروں، قلمکاروں، فنکاروں اور ادیبوں کو عزت و احترام سے یاد کیا اور ایوارڈز سے نوازا۔ مستحق شاعروں اور فنکاروں کو نقد انعامات دے کر مالی مدد کی۔ اس موقع پر مرحوم بدر منیر کو یاد کیا گیا۔ مشہور مزاحیہ فنکار ’’سیلئی‘‘ مرحوم کی بیوہ کو ایوارڈ کے ساتھ ساتھ نقدانعام سے نوازا گیا۔ عبدالرحیم روغانیؔ کے شعر و فن کو سراہتے ہوئے انہیں ایوارڈ اور نقد انعام سے نوازا گیا۔ اس طرح اُس کے بوڑھے بدن میں نئی جان آگئی کہ پشتون مٹی پر اب ایسے قدر دان پیدا ہوگئے ہیں کہ روغانیؔ صاحب کی لافانی شاعری کی ستائش کرتے ہیں اور اُن کی ادبی اورپشتو زبان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہی احساس شاعر، ادیب اور فنکار میں نئی اُمید کی روح پھونک دیتا ہے۔ نئے سرے سے زندگی کی لگن عطا کرتا ہے۔ مایوسیوں کے اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن کرتا ہے۔ یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے ادیب، شاعر اور فنکار کو عزت و احترام سے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ تاریخی پروگرام برسوں یاد رہے گا کہ پہلی بار پیسے کوصحیح جگہ پر اور صحیح طریقے سے لگایا گیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے اس حوالے سے آئی ہوئی رقم کو چند احباب آپس میں بانٹ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ بلاشبہ موجودہ ضلعی ناظم محمد علی شاہ خان اور اُس کی کابینہ مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے عوامی پیسہ عوام پر ہی لگا دیا۔ محمد علی شاہ نے پروگرام میں جو کچھ سٹیج پر کہا، وہ دراصل ہر سواتی کے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے سیاسی پارٹیوں سے بالا تر اپنے آپ کو سوات کی مٹی کا فرزند کہا۔ سب کو خوش آمدید کہا اور یہ بھی کہا کہ آج مسکرانے اور خوش ہونے کی رات ہے جس پر سب کا حق ہے۔ سوات کے عوام نے بے پناہ دُکھ جھیلے ہیں۔ درد اور زخم برداشت کیے ہیں۔ اپنے وطن میں مسافری کی صعوبتوں کا سامنا کیا ہے۔ خون کا دریا پار کیا ہے۔ اس لیے آج خوشیوں سے بھر پور ان چند لمحوں پر ہر سواتی کا حق ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
انہوں نے اس شاندار پروگرام کے انعقاد پر اور ترتیب دینے کی کوششوں پر بیگم نسیم اختر کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ ہدایت کی کہ ایسے پروگرام وہ اگر ہر مہینا نہیں، تو دوسرے مہینے ایک بار ضرور ترتیب دیں۔
پروگرام کا آغاز سوات کے مشہور اور ہر دلعزیز شاعر ظفر علی نازؔ نے اپنی خوبصورت شاعری سے کیا اور اپنے دلنشین اندازِ بیان سے سامعین کے دل موہ لیے۔ بعد میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پشتو کے مشہور گلوکار اور خیبر نیوز چینل کے روحِ رواں جناب بختیار خٹک نے ادا کیے۔ انہوں نے اپنی دلکش انداز سے پروگرام کے آخر تک سامعین کو بور نہ ہونے دیا۔ ہر ایک کو عزت و احترام سے اسٹیج پر بلایا۔ ہر مدعو کرنے والے کو ایسی تعارفی کلمات سے بلایا جیسے کہ وہ ہر کسی کو برسوں سے جانتے ہوں۔ ان کی موجودگی نے پروگرام کو چار چاند لگائے۔
پروگرام میں پیش ہونے والے مختلف آئٹمز کو عوام نے بے حد پسند کیا اور داد دی۔ اس میں خٹک ڈانس، سوات کی رواجی شادی میں ڈولی کا عملی مظاہرہ، جوڈو کراٹے کا تماشا، مزاحیہ خاکوں اور سب سے بڑھ کر روائتی موسیقی نے سماں باندھ لیا۔ مختلف گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جسے سامعین نے سراہا اور بے پناہ داد دی۔
زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور فنکاروں کو بے شمار ایوارڈوں سے نوازا گیا۔ گلوکاروں، شاعروں، آرٹسٹوں، لکڑی اور پتھر پر کام کرنے والے استادوں کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا، انہیں سراہا گیا اور اُن کی بے انتہا حوصلہ افزائی کی گئی۔ اگر کالم کی تنگ دامنی کی فکر لاحق نہ ہوتی، تو میں سب کے نام لکھ کر سب کو الگ الگ مبارک باد دیتا۔ پھر بھی میں تمام ایوارڈ لینے والوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں، میں تمام صحافی حضرات کو اور میڈیا والوں کو بھی ایوارڈ لینے پر دلی مبارک باد دیتا ہوں۔
قارئین، ہر پروگرام میں کچھ نہ کچھ کمی یا خامی ضرور ہوتی ہے۔ کیوں کہ اسے انسانوں نے بنایا ہوتا ہے اور انسان غلطی کا پُتلا ہے۔ یہاں ایک کمی شدت سے محسوس کی گئی کہ ایوارڈ لینے والوں میں اُن صحافی حضرات کو بھی شامل کرنا چاہئے تھا جو اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرگئے ہیں، جیسے موسیٰ خان خیل وغیرہ۔ مجھے اُمید ہے کہ آئندہ اُنہیں بھی یاد رکھا جائے گا۔
اس تاریخی شاندار پروگرام کو ترتیب دینے میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا۔ جوانوں نے دن رات ایک کرکے اسے ممکن بنایا۔ سب داد و تحسین کے مستحق ہیں لیکن سب سے زیادہ کام کلچر چیئرپرسن نسیم اختر نے کیا۔ وہ کافی دنوں سے اس دوڑ دھوپ میں مصروف تھیں۔ دن رات ایک کرچکی تھیں اور اپنی محنت، لگن اور خلوص سے اتنی بڑی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کی۔ وہ پروگرام کے دوران میں بھی مصروف رہیں۔ ہر طرف توجہ دیتی رہیں۔ ہر مہمان کو عزت سے نوازتی رہیں۔ انہوں نے سٹیج پر آکر اپنے معاونین اور ساتھیوں کو احترام سے یاد کیا اور اُن کی کوششوں کو سراہا۔ تمام ضلعی اور تحصیل ناظمین نے سٹیج پر آکر میڈم نسیم اختر کی خدمات کی تعریف کی اور انہیں نقد انعامات سے بھی نوازا۔ مجھ خادم کو ’’بہترین کالمسٹ‘‘ کے ایوارڈ سے سرفراز کیا، جس کے لیے میں تمام ایوارڈ کمیٹی ممبران کا شکر گزار ہوں۔ یوں یہ پروگرام بخیر و عافیت بختیار خٹک کی میٹھی آواز میں ٹپوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس