ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

نقضِ امن کی کارروائی

پاکستان میں نقضِ امن کی شکایات اور رپورٹس لاکھوں میں درج ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے پولیس عمومی طور پر مقدمات کی پیروی اور تفتیش کرنے کے لیے مسلسل مصروف عمل ہوتی ہے۔ اس طرح کے مقدمات کی وجہ سے عدالتیں اور پولیس اکثر مصروف ہوتی ہے۔ اس لیے دیگر ذمہ داریاں اور ضروری مسائل حل طلب رہ جاتے ہیں۔ یوں بے کار میں بعض حل طلب مسائل ادھورے رہ جاتے ہیں۔
قانون نے سائل، درخواست کنندہ کو نقضِ امن، تحفظِ جان و مال، قتل کی دھمکی دینے، اسلحہ اٹھانے، ہتکِ عزت اور زبردستی کرنے کے برخلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے فوجداری قوانین میں دفعات دی ہوئی ہیں، لیکن اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ سائلین آلودہ ہاتھوں سے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان کی اس حرکت کی وجہ سے ایک طرف جوڈیشل اور دوسری طرف ایگزیکٹوز مشینری حرکت میں آجاتی ہے جب کہ اس کے علاوہ مخالف فریق کو کافی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ پھر اس کو تردید یا جواب کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر پولیس اور عدالتی کارروائی سے بچنے کی خاطر نامزد ملزم کو عدالتوں سے ضمانت لینا ہوتی ہے، اور ملزم کو گرفتار کرکے ہتھکڑیوں میں باندھ کر لایا جاتا ہے ،جس کی ضمانت لینے کے لیے گواہان اور تصدیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالات یہ ہوتے ہیں کہ ضمانت کے لیے گواہان خصوصی طور پر اچھی شہرت کے حامل علاقہ کے رہائشی باشندگان ہونے چاہئیں۔ ضمانت کو آخری مرحلے میں کنفرم کیا جاتا ہے۔ مسئلہ اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب ملزم کسی اور علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔ کچی ضمانت تو مل جاتی ہے، لیکن دو تین ماہ بعد اس کو پکا کرنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مخالف فریق کو غیر ضروری مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
بلا وجہ پریشان کرنا، ذہنی کوفت دینا، ہتکِ عزت کرنا اور ان جیسے دیگر مقاصد کے لیے یہی دفعات کام آتی ہیں ۔ پھر اگر بندے نے جرم بھی نہ کیا ہو ،اس کو ضمانت دینی ہوگی۔یہ درست ہے کہ غلط مقدمات دائرکرنے کے سلسلے میں برخلاف قانون بھی موجود ہے لیکن اس کو شاذ و نادر عمل میں لایا جاتا ہے۔ پولیس والے یا کیس دائر کرنے والے کے خلاف اکثر مقدمہ عدم ثبوت کی بنا پر خارج ہوجاتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود مقدمہ سرد خانے کی نذر کردیا جاتا ہے اور پولیس، دعویٰ یا درخواست کرنے والے کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قانون ساز اسمبلی کو غلط دعویٰ، درخواست قانونی چارہ جوئی کے غلط ثابت ہونے پر قانون بنانا چاہیے۔ ایسی صورت میں سخت سزا اور جرمانہ کیا جانا چاہیے، تاکہ غلط درخواست اور دعویٰ کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جاسکے اور اس کو اس قسم مقدمات سے باز رکھا جا سکے۔مینٹننس آف پبلک آرڈر کے توسط سے پولیس کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار بھی ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر اس کو سیاسی ہتھیار بھی کہا جا سکتا ہے۔ آوارہ گردوں، منشیات فروشوں ، دہشت گردی میں ملوث ملزموں اور سیاسی شخصیات کو انہی دفعات کے ذریعے لگام دی جاتی ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں پر نقضِ امن کا خطرہ ہو یا جہاں پر دیدہ دانستہ طور پر کسی خاص گروہی مقاصد کے لیے ارادتاً عوام میں لاقانونیت کرکے بے چینی یا اشتعال پھیلایا جاتا ہے، جس سے سرکاری مشینری کے علاوہ حکومت کو کسی خاص مقصد کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس قسم کی واردات، جلسے جلوسوں اور مظاہروں کو روکنا اور سرکردہ افراد کو پابند ضمانت کرنا حکومت اور پولیس کی مجبوری بن جاتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں سرکاری اور حکومتی پالیسی عوامی جذبات کو بر انگیختہ کرتی ہے، تو اس صورت عوام کو قانونی اور آئینی پابندی کے تابع آزادئ اظہار کی اجازت ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں کے ناروا اور امتیازی سلوک پر بھی لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی قانون عوام کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتا۔ اس لیے حکومت کو عوام کی منشا کو دیکھتے ہوئے قانون بنانا ہوتا ہے۔ عوام الناس کی رائے کو فوقیت دینی چاہئے ۔
نقضِ امن اور ان جیسے مقدمات سے نمٹنے کے لیے پالیسی عمل میں لانی چاہیے اور خصوصی طور پر سپیشل قوانین بنانے چاہئیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے کمپیوٹرائزڈ میکانزم بنانا چاہئے۔ تاکہ ایک ہی فرد کو دو اور تین مرتبہ پابندِ ضمانت نہ کیا جاسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عدالت میں ایک خاص رجسٹری بننی چاہیے۔ اسے اس قسم کے مقدمات بھیجنے چاہئیں، تاکہ اس کی جانچ پڑتال ہو سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مقدمہ بنتا ہے تو ہی کارروائی کی اجازت دینی چاہیے۔ ورنہ مقدمے کو پہلی صورت میں دفن کرنا چاہیے۔ اس سے یہ ہوگا کہ غیر ضروری درخواستوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ عدالتوں اور پولیس پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ اس قسم کے مقدمات سے سائلین دوہرے فائدے سمیٹتے ہیں اور بلاوجہ کسی کو تنگ کرنے کے لیے نت نئے مقدمات رجسٹرڈ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائلین قانونی سقم سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے برعکس چُپ سادھ لے بلکہ چاہیے کہ وہ ان دفعات سے فائدہ حاصل کرے اور شرپسند عناصر کے خلاف قانونی دادرسی حاصل کرے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ پھر اس کو چیلنج کرکے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اس طرح فریقِ مخالف بھی بے بنیاد اور بے سروپا الزمات کو ادھورا نہیں چھوڑے بلکہ الزمات کو نہ مانتے ہوئے اس کی تردید کرکے متعلقہ فورم پر جواب، درخواست وغیرہ دائر کرنا چاہئے ۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں