روح الامین نایابکالم

پختون دھرنا

یہ جارحانہ قسم کا سیاسی اور گالم گلوچ والا دھرنا نہیں تھا۔ یہ مخالف سیاسی مفاد کا دھرنا بھی نہیں تھا۔ یہ کرسی اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا دھرنا بھی نہیں تھا۔ یہ صرف اور صرف بچاؤ کا دھرنا تھا۔ ظلم کے خلاف عدل و انصاف کا دھرنا تھا۔ یہ اُس نقیب اللہ محسود کے جوان، بے گناہ لہو کے سوال کا دھرنا تھا، جو کراچی کی شاہراہوں پر بے دردی سے بہایا گیا تھا۔ یہ دھرنا ایک ظالم، قاتل راؤ انوار کے خلاف نہیں بلکہ اُن بے شمار قاتلوں، ظالموں اور راؤ انواروں کے خلاف تھا جن کے ہاتھ بے گناہ پختونوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ خون بہت ارزاں ہوگیا تھا۔ جانوروں اور پرندوں سے بھی ارزاں۔ جہاں جی چاہے دہشت گردی کا ٹھپا لگا کر چند نوجوان پختونوں کا لہو کسی بھی وقت بہایا جاسکتا تھا۔ کون پوچھتا ہے؟ فرعون تو پھر بھی اچھا تھا، لڑکیوں اور عورتوں کو چھوڑ دیتا تھا۔ ہم تو اُنہیں بھی نہیں بخشتے۔ تاریخ کا یہ جبر دیکھو کہ قتل بھی ہم ہوئے اور دہشت گرد بھی ہم ہی ٹھہرے۔ لہو بھی ہمارا ہی بہا۔ موردِ الزام بھی ہم ہی ہوئے، لیکن آخر کب تک!!! دیواریں، پتھر اور چٹانیں بھی چیخ اُٹھیں۔ پختون مٹی بھی رو پڑی، لرز اُٹھی اور اُس سے ایک نوجوان منظور پشتین اُٹھا اور نکل پڑا۔ نعرۂ مستانہ لگاتا ہوا ڈیرہ اسماعیل خان سے گلی گلی، کوچہ کوچہ سڑکوں اور شاہراہوں سے ہوتا ہوا اسلام آباد کی طرف قدم بڑھانے لگا اور پھر یہ آواز، یہ پکار سوشل میڈیا سے نکل کر ہر پختون کے کان تک پہنچی۔ لوگ ساتھ ملتے گئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ دیتے رہے۔ قدم سے قدم ملاتے رہے۔ امن کی آوازسے در و دیوار گونج اُٹھے۔ اسلام آباد کے ایوان لرزنے لگے۔
یہ پختون تحفظ تحریک (موومنٹ) کا ’’غورزنگ‘‘ ہے۔ وہ غورزنگ جو ایک سمندری موج کی طرح موجزن ہوکر سیلابی اور طوفانی ریلہ اختیار کرچکا تھا۔ منظور پشتین اس پختون تحفظ موومنٹ کا ایک جواں روح رواں ہے۔ سادہ، نوجوان، پُرجوش منظور جو بہت سادہ باتیں کرتا ہے، بغیر کسی لگی لپٹی کے۔ مصنوعیت اور بناوٹ کے بغیر، کسی پروٹوکول اور تمہیدوں کے بغیر، اتنی پُر اثر اور سچی باتیں جو دلوں پر اثر کرگئیں جو جگر کے آرپار نکل گئیں۔ وزیراعظم رو پڑا۔ جرنیل آب دیدہ ہوگئے۔ صاف بات، ایک صاف ستھرا مؤقف کہ اگر یہ سب ظلم و زیادتی ریاست کی پالیسی کے تحت ہو رہی ہے، تو پھر پختون مجبوراً اس کا جواب کسی اور زبان میں دیں گے۔ اگر یہ اتفاقاً یا شخصی انتقامی کارروائی ہورہی ہے، تو میں آپ کے پاؤں پڑ رہا ہوں کہ اس ظلم و ستم کو روکیں۔ اب یہ ہمارے برداشت سے باہر ہے۔ ایسا نہ ہوکہ مجبوراً ہمارے ہاتھ اُٹھ جائیں۔ غائب گم شدہ نوجوان پختونوں پر مقدمہ چلاؤ یا انہیں رہا کرو، دہشت گردی کے نام پر عام پختونوں پر ظلم نہ کرو، اُن کی تلاشیاں نہ لو، اُن کے گھروں کو تباہ و برباد نہ کرو، راؤ انوار کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرو۔
یہی چند سادہ باتیں تھیں، مطالبات تھے اس کی لکھی ہوئی گارنٹی لے کر یہ لوگ پُرامن طور پر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے، لیکن اس سادہ اور مختصر دھرنے نے بہت کچھ پختونوں کے دامن میں ڈال دیا۔ یہ ایک غیر سیاسی دھرنا تھا۔ یہ پختون قام کے نام اور پختون قام کے تحفظ کے نام پر ایک پُرامن دھرنا تھا۔ یہاں دیگیں نہیں آتی تھیں۔ یہاں ہر کوئی اپنا کھاتا پیتا تھا۔ ہر شام ہر شخص خود صفائی کرتا تھا۔ یہاں اعلیٰ اقدار کا پاس رکھا گیا۔ یہاں کوئی گالی، کوئی غیر پارلیمانی الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ یہاں کسی کے ساتھ بد تمیزی نہیں کی گئی۔ ہر پارٹی، ہر شخص کو سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ صرف یہ درخواست کی جاتی تھی کہ متعلقہ ایشو پر، بولا کریں۔ انسانی حقوق کی علم بردار اور مشہور وکیل و سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابقہ صدر محترم عاصمہ جہانگیر نے اپنی موت سے دو دن پہلے اس تاریخی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان پختونوں کے بغیر اور بابائے امن باچا خان کے بغیر ایک تنگ نظر اور محکوم پاکستان گردانا جائے گا۔‘‘
اس دھرنے نے پختونوں میں سیاسی شعور بیدار کر دیا۔ پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے تحفظ کی سوچ کو اُجاگر کر دیا۔ اس دھرنے اور مظاہرے نے یورپ، لندن، فرانس، جرمنی اور واشنگٹن کے پختونوں کو جھنجھوڑا۔ وہ نکل آئے اور پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے۔ واشنگٹن ڈی سی کا مظاہرہ ایک پختون دوشیزہ نے ترتیب دیا تھا، جس نے حبیبہ آشنا کے نام پر ریڈیو ڈیوہ کو اس بارے میں اپنا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔
اسی دھرنے کو سوشل میڈیا پر کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ’’وائس آف امریکہ‘‘ کے ڈیوہ ریڈیو نے بلاشبہ پختون قوم کے نام کا حق ادا کر دیا۔ اس ادارے نے اپنی نشریات میں نناوے فی صد حصہ اس دھرنے کے نام کیا تھا۔ خیبر نیوز چینل نے بھی تھوڑا بہت پشتو زبان کے چینل ہونے کا حق ادا کردیا، لیکن پاکستانی میڈیا جسے ’’پنجابی میڈیا‘‘ کہنا مناسب ہوگا، اسے مکمل طور پر نظر انداز کرکے پختون قوم سے تعصب کا کھلا ثبوت دے دیا۔
مجھے افسوس تو یہ بھی ہے کہ ہمارے مقامی اخباروں کے کالم نگاروں نے بھی ابھی تک اس موضوع پر اپنا قلم نہیں اُٹھایا ہے۔ حالاں کہ تمام دنیا نے مختلف ذرائع سے اس تاریخی دھرنے کا مثبت پیغام دیا ہے، لیکن سوات کا پرنٹ میڈیا خاموش، کالم نگارخاموش، تبصرہ نگار خاموش، کیا اس خاموشی کے پیچھے ڈر اور خوف کا احساس ہے یا وہ کسی طوفان سے ڈرتے ہیں؟ ہم جو کوئی بھی ہوں، ہم جس سیاسی پارٹی سے بھی تعلق رکھتے ہوں، ہم پختونوں کی ابدی اور تاریخی نام و نسل سے باہر نہیں نکل سکتے۔ لہٰذا بحیثیت پختون ہم سواتی عوام منطور پشتین کے پُرامن جدوجہد میں ہر وقت ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ آئندہ کالم میں ہم اس تاریخی پختون دھرنے پر ایک اور مختلف زاویے سے بحث کریں گے، اِن شاء اللہ!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں