فضل رازق شہابکالم

این 95 کی توسیع اور مساجد

سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ جس شاہراہ کو این ایچ اے نے N95 کے نام سے اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے، یہ ان کی بنائی ہوئی سڑک نہیں۔ جب یہ سڑک تعمیر ہوئی تھی، اس وقت این ایچ اے تو کیا پاکستان کا نام بھی نہیں تھا۔ اس کی تعمیر کو قریباً ستانوے سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ یہ ریاستِ سوات کے حکمرانِ اول میاں گل عبدالودود کے عہد میں ریاستی عوام نے اپنی جائیداد کی قربانی دے کر اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی اور بعد میں حکمرانِ دوم میاں گل جہانزیب کے دور میں اس کی توسیع اور پختگی عمل میں لائی گئی۔ اب شورش کے بعد بیرونی فنڈنگ کے لالچ میں وفاقی حکومت نے اس شاہراہ کو صوبائی حکومت سے لے کر این ایچ اے کے حوالہ کردیا ہے۔ اس کے بعد اس شاہراہ کی جو درگت بنی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ گذشتہ سات آٹھ سال کے عرصہ میں اس کی حالت بد سے بد تر ہوتی رہی۔ ابھی حال ہی میں سنا گیا ہے کہ سعودی حکومت نے خیرات کے طور پر ساڑھے تین ارب روپیہ اس سڑک کی تعمیرنو کے لیے عطیہ کیا ہوا ہے۔ سڑک کی موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھا جائے، تو یہ رقم بہت معمولی ہے۔ اس کی مکمل بحالی کے لیے دس ارب روپیہ بھی کم ہے۔ کیوں کہ یہ مکمل اور از سرنو تعمیرکے بغیر کچھ فائدہ نہیں دے سکے گی۔
لیکن یہ ہماری سر دردی نہیں۔ ہمارے عوام کا اصل مسئلہ ان ذاتی عمارات کی جبری مسماری ہے، جو حکومت نے نہایت بے رحمانہ اور ظالمانہ اقدامات سے سرانجام دی۔ جس کا اس کے کسی بھی ادارے کے ساتھ اخلاقی، قانونی یا انسانی جواز نہیں تھا۔ لیکن عوام کو جس خوف میں گذشتہ ایک عشرہ سے مبتلا رکھا گیا ہے، ان میں دم مارنے یا اُف کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی معمولی آواز بھی اُن کے گلے میں دبائی جاسکتی ہے۔ اسی خوف اور دباؤ کے عالم میں لوگوں کی اربوں روپیہ کی عمارات اُن ہی کے ہاتھوں مسمار کردی گئیں۔ اور اپنے خود ساختہ نقشہ جات اور سروے کی رُو سے وہ آبادیاں بھی گرا ئی جا رہی ہیں جو سابقہ دور میں مجاز افسران کی نشان دہی کے مطابق سڑک کے درمیان سے 33 فٹ کے فاصلے پر تعمیر کی گئی تھیں۔ حالاں کہ ان کی اپنی سنٹر لائن میں گڑ بڑ ہے۔ قطعِ نظر این ایچ اے کے کیے ہوئے کام کی کوالٹی کے جو سب کے سامنے ہے اور آپ لوگ دیکھیں گے کہ جلد ہی اس کے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔ سڑک کے کنارے کچھ مساجد بھی ہیں۔ یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ یہ مساجد جو بہت خوبصورت اور بہترین معیار کے مطابق تعمیر ہوئی ہیں، یہ راہ چلتے لوگوں، بیرونِ ملک سواتیوں اور مخیر حضرات کے عطیہ جات کی بدولت تعمیر ہوسکی ہیں۔ اب یہ سڑک کی توسیع کی زد میں آگئی ہیں۔ ہر گاؤں میں کم از کم ایک یا دو مساجد مسمار ہوں گی۔ ان میں بعض تو آدھے سے زیادہ حصہ سے محروم ہوجائیں گی۔ ذاتی عمارات تو عوام نے اپنی جیب سے گرائی ہیں، جو بذاتِ خود ایک ظالمانہ اور غیر اسلامی غیر انسانی حکومتی اقدام تھا۔ مگر مساجد کے بارے میں کوئی تو یہ ذمہ داری اکیلے نہیں اُٹھا سکتا اور اجتماعی طور پر یہ ایک وقت طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا ہم بذریعہ تحریر ہذا این ایچ اے کے مجاز حکام سے اور وفاقی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ کم از کم مساجد کی مسماری اور دوبارہ تعمیر کا خرچہ منظور کریں اور کچھ اپنی آخرت سنوارنے کا بندوبست کریں۔
ہزاروں قبریں مسمار ہوئیں، کسی نے آہ بھی نہیں کی۔ ایسی پسی ہوئی قوم کہاں ہوگی دنیا میں؟ مساجد کے ساتھ ایسا تو نہ کیجئے۔ آپ کے خود ساختہ RQW سے انکار کی جرأت کس قوم میں ہے؟
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
این ایچ اے کے مجاز حکام سے درخواست ہے کہ مساجد کے لیے اپنے ’’ری وائزڈ‘‘ پی سی ون میں گنجائش رکھیں۔ دوسری عرض داشت ان تعمیرات کے بارے میں ہے جو آپ کے تعین کردہ حدود سے دو یا تین فٹ تجاوز کردہ ہیں، ان کے لیے بھی رعایت کا فیصلہ فرما دیں، تو بہتر ہوگا۔ حالاں کہ سابقہ مجاز حکام نے ان کی نشان دہی کی تھی اور وہ مجوزہ قانون کے عین مطابق ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں