انجینئر نوید خانکالم

گرینڈ ڈیزائن

اس مخصوص فقرے ’’گرینڈ ڈیزائن‘‘ کا استعمال اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ آج کل جب یہ لفظ سننے میں آجائے، تو کوئی خاص توجہ بھی نہیں دیتا۔ پچھلے دنوں کی بات ہے کہ پشاورمیں انجینئر شاہ زیب خان، ساجد ایڈوکیٹ اور خالد ایڈوکیٹ کے ساتھ چائے سے شروع ہونے والی محفل جلد ہی سیاسی نشست میں بدل گئی۔ باتوں باتوں میں شاہ زیب کی وساطت سے ہماری معلومات میں بہت اضافہ ہوا اور ’’گرینڈ ڈیزائن‘‘ کی اصطلاح سے آ شنائی حاصل ہوئی۔ اُس نے پس منظر میں جاتے ہوئے کہا کہ جس طرح کی تبدیلیاں عالمی سطح پر گذشتہ کئی سالوں میں وقوع پذیر ہوئی ہیں، اُسی حساب سے پاکستان میں بھی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ جس طرح صدام حسین، زین العابدین، معمر قذافی، علی عبداللہ صالح کو ہٹایا گیا، بالکل اسی طرح یہاں بھی تبدیلی لائی گئی۔گو کہ طریقہ الگ اپنایا گیا لیکن منزل ایک ہی تھی۔
اس نشست میں جس دوسری اصطلاح کی سمجھ آئی، وہ ’’انویسٹمنٹ‘‘ تھی۔ شاہ زیب بھائی کے بقول اس دور میں وہ بندہ کامیاب ہوتا ہے جس کی انویسٹمنٹ زیادہ ہوتی ہے۔ ماضی کے برعکس، اس بار مقتدر حلقوں نے عدلیہ میں انویسٹمنٹ کی ہے، جس کے نتیجے میں وہی غیرقانونی کاموں کے لیے قانونی جواز ڈھونڈا گیا ہے، اور ماضی میں جس طرح براہِ راست شب خون مارا جاتا تھا، اب اسے کے لیے عدلیہ اور بلوچستان ماڈل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ محمود خان اچکزئ نے تو کھل کر بلوچستان میں ہونے والی ٹوپی ڈرامے کو بے نقاب کیا ہے۔اسی طرح اب سیاسی مخالفین کو براہِ راست اکھٹا کرنے کی بجائے ان کے بیچ عبدالقدوس بزنجو کا پُل بنایا جاتا ہے، ایک اپنے سینیٹرز کو دوسرے اور دوسرا تیسرے کے ہاتھ میں پکڑا کر بات کو آگے بڑھاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف بھی شطرنج کی اس بازی میں ماہر کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ مثلاً جب بلوچستان میں آئینی بحران پیدا کرنے کی آڑ میں پورے سسٹم کو لپیٹنے کا منصوبہ بنایا گیا، تو دوسری سائیڈ نے بزنجو جیسے مہرے کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر قبول کیا، لیکن ایسی کوئی بھی کوشش نہیں کی جس سے نظام کو خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔ عدلیہ انویسٹمنٹ کے کاؤنٹر چیک کے لیے تنقید روز بروز بڑھائی جا رہی ہے اور ایسی باتیں اب سننے کو ملتی ہیں جو کئی سال پہلے سوچنے میں بھی ناممکن تھیں۔ بڑی حد تک اس اثر کو تقویت دی گئی ہے کہ عدلیہ فریق بن چکی ہے۔ جس طرح عوامی نمائندوں کے لیے ایسے قوانین بنائے گئے ہیں کہ جن سے ان کا احتساب عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ ہو رہا ہے۔ کیوں کہ جب کوئی بندہ عوامی نمائندگی کی خواہش رکھتا ہو، تو اس عہدے سے جڑے مراعات اور اختیارات اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ اس شخص کو اب اپنے آپ کو عام لوگوں سے اونچے معیار پہ رکھنا ہوگا۔ اسی طرح جج صاحبان کو بھی تنقید بالکل اگنور کرنی چاہیے۔ کیوں کہ منصف کا منصب اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ بالکل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے۔ مثلاً سپریم کورٹ میں اس وقت 17 جج صاحبان خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لیکن اگر آپ ن لیگ کے خلاف کیسز کا مطالعہ کریں، تو ایسا لگتا ہے کہ اب اِقامہ جیسے کمزور فیصلے کے دفاع میں پانامہ اسکواڈ اور ’’چیف صاب‘‘ ہر بنچ کا حصہ ہوتے ہیں جب کہ باقی 11 ججوں کو کسی بھی بنچ میں فیصلہ کن نمائندگی نہیں دی جا رہی۔ اب ان کو قسمیں کھانا پڑ رہی ہیں لیکن خلیل جبران کے بقول: ’’آپ نے بات کی، تو مجھے شک ہوا لیکن جب آپ نے قسم اٹھائی، تو میرا شک یقین میں بدل گیا۔‘‘ عدلیہ کواب اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے تمام ججوں کو یکساں طور پر بینچوں کا حصہ بنا دینا چاہیے اور اس تاثر کو زائل کرنا چاہیے کہ صرف پانامہ اسکواڈ ہی مقدمات سنے۔
ویسے تو ’’گرینڈ ڈیزائن‘‘ کے نتیجے میں مطلوبہ افراد کو ہٹا کر نئے لوگ آگے لائے جا چکے ہیں، لیکن اگر ہم نتائج کے بارے میں غور کریں، تو اب مغرب بھی مان رہا ہے کہ دنیا بہتری کے بجائے سنگین بدامنی کا شکار ہوچکی ہے۔ لہٰذا ہمیں دوسرے ممالک سے سبق سیکھتے ہوئے ایسے کسی بھی غیر آئینی اقدام سے گریز کرکے عوامی مینڈیٹ کا بھرپور احترام کرنا چاہیے۔ اکثر اوقات لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ یار اب بھی تو سویلین حکمرانی ہے، تو یہ سراسر مذاق والی بات ہے۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں بڑے مہارت کے ساتھ سیاستدانوں کو آگے چمک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اختیارات کی ڈوری پیچھے سے ہلائی جاتی ہے ۔اور اس بات کی تصدیق اس سے بڑھ کر کیا ہے کہ جب پچھلے دنوں حامد میر صاحب نے فرمایا کہ جب انہوں نے شاہد خاقان عباسی صاحب سے صحافیوں کی گمشدگی کی شکایت کی، تو ملک کے وزیراعظم نے جواب دیا کہ حامد صاحب! آپ صحافیوں کی بات کرتے ہیں، یہاں پر تو ہماری پوری بلوچستان اسمبلی اٹھوائی گئی ہے۔
قارئین، یہ اس ملک میں عوامی اختیار کی حالت ہے۔ اب حال ہی میں اس خدشے کو بڑی خوبصورتی سے فرحت اللہ بابر صاحب نے سینیٹ میں بیان کیا ہے کہ کس طرح De-Facto ریاست، حکومت کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس بیان کے بعد زرداری کا ان کو ہٹانا اس بات کی دلیل ہے کہ اب بھی اس ملک میں جلنے والے مقامات موجود ہیں۔ لہٰذا یہ بات کہ سیاستدان ہی یہاں حکومت کرتے ہیں اور تنقید کو ان کے کھاتے میں ڈالنا سراسر ناانصافی ہوگی۔ والٹئیر کے بقول: ’’اگر آپ کسی ملک کے حقیقی حکمرانوں کو معلوم کرنا چاہیں، تو بس اس بات کی کھوج لگائیں کہ تنقید کس پر نہیں کی جا سکتی۔‘‘
ستر سالہ تاریخ میں ہم کبھی مارشل لا کی صورت میں ’’اسلامی عسکریہ پاکستان‘‘ دیکھتے ہیں اور کبھی عدلیہ کی ایڈونچرازم کی صورت میں ’’اسلامی عدلیہ پاکستان‘‘ دیکھتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ حقیقی جمہوریت کے لیے جو بیڑا اُٹھایا گیا ہے اس جد و جہد میں اسفندیار ولی، میاں رضا ربانی، فرحت اللہ بابر، جاوید ہاشمی، اعتزاز احسن، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، میاں افتخار اور نوجوان منظور پشتین کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں بھی حقیقی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصول میں حتی الوسع اپنا حصہ ڈال کر جدوجہد کرنی ہے، بقولِ فیض
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
اُٹھے گا ان الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہو اور تم بھی ہو
اور راج کریگی خلق خدا
جو میں بھی ہو اور تم بھی ہو

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں