فصل ربی راہیکالم

’’ریاستِ سوات 1915ء تا 1969ء‘‘ کا مختصر جائزہ

’’ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء)‘‘ ڈاکٹر سلطان روم کی سوات کے بارے میں جدید تحقیق اور تاریخ ہے۔ یہ کتاب دراصل ان کی انگریزی پی ایچ ڈی مقالے کا اردو ترجمہ ہے جسے اردو کے مایہ ناز شاعر اور ادیب احمد فوادؔ نے بڑی خوبی کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مقالہ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کراچی نے انگریزی زبان میں کتابی صورت میں شائع کیا ہے اور اب تک اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ کئی سال قبل شعیب سنز کے زیرِ اہتمام زیورِ طبع سے آراستہ ہوا تھا جو اپنی مستند تاریخی اور تحقیقی اہمیت کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔ پہلا ایڈیشن ختم ہوچکا تھا اور تاریخِ سوات سے دل چسپی رکھنے والے طالب علم اور عام شائقین اس کو مسلسل طلب کر رہے تھے ۔ اس لیے اس کا دوسرا ایڈیشن حال ہی میں شائع کیا گیا۔
اس کتاب میں سوات کی قدیم تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ریاستِ سوات کی جدید تاریخ کا مفصل اور مستند جائزہ لیا گیا ہے۔ اب تک سوات کی تاریخ کے بارے میں اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن ڈاکٹر سلطان روم کی کتاب ’’ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء)‘‘ اس لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ انھوں نے ریاستی دور کی تاریخ پر بڑی عرق ریزی سے تحقیق کی ہے اور ریاستِ سوات کے بارے میں وہ حقائق جو ابھی تک کسی بھی تاریخی کتاب میں شائع نہیں ہوئے ہیں، وہ اس کتاب میں پہلی دفعہ شامل کیے گئے ہیں۔ ان کا تحقیقی کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مقالہ کے لیے نہ صرف سوات کی تاریخ کے بارے میں جدید و قدیم کتب کا بہ غور مطالعہ کیا ہے بلکہ ڈسٹرکٹ کورٹس کے مال خانہ میں موجود ریاستی دور کے تمام ریکارڈ کو کنگال کر اس کا عِطر اپنی تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ انھوں نے یہ تحقیقی کام اس وقت انجام دیا تھا جب ریاستِ سوات میں اہم عہدوں پر فائز کچھ بزرگ ابھی زندہ تھے۔ وہ ان بزرگوں کے پاس جاتے رہے ہیں، ان سے طویل انٹرویوز لیتے رہے ہیں اور انٹرویوز میں جو تاریخی حقائق سامنے آئے ہیں، انھیں سپردِ قلم کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تحقیق کو مزید غیر جانب دارانہ اور حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے ریاستی دور کی ان اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کرکے اصل حقائق کی پردہ کشائی کرتے رہے ہیں جو والئی سوات کے طرزِ حکمرانی کے مخالف تھیں اور ریاستی دور میں ان کے خلاف تحریکیں چلاتی رہی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان مخفی حقائق اور بنیادی وجوہات سے بھی پردہ اٹھایا ہے جن کی وجہ سے ریاستِ سوات کو 1969ء میں پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم کیا گیا تھا۔
مصنف کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ریاستی دور کے محاسن و معائب دونوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں ریاستِ سوات میں اہم عہدوں پر فائز شخصیات کا مؤقف بھی موجود ہے اور ریاست کے مخالفین کا نقطۂ نظر بھی دیا گیا ہے۔ یوں یہ تحقیق سوات اور ریاستِ سوات کی تاریخ کے بارے میں ایک اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔
سوات کے ہر تعلیم یافتہ نوجوان کو اس اہم کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک تو انھیں اپنے علاقے کی تاریخ کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے اور دوسرا آج کل جس طرح ریاستی دور کو ہر لحاظ سے ایک مثالی اور ترقی یافتہ شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اس کے مطالعہ سے بادشاہ صاحب اور والئی سوات کے طرزِ حکومت کا دوسرا رُخ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس دور میں بھی سب اچھا نہیں تھا۔ اس وقت کے حکمرانوں میں خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی اور سوات کے نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کو ان دونوں کا علم ضرور ہونا چاہیے۔
کتاب میں دئیے گئے تمام حقائق باقاعدہ گہرے مطالعہ اور وسیع تحقیق کا نتیجہ ہیں، جس کے لیے مصنف نے باقاعدہ حوالے دیے ہیں۔ جن کتب، اخبارات اور رسائل سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کی طویل فہرست اور جن مشہور اور غیر مشہور شخصیات سے ملاقاتیں کی گئی تھیں، ان کی تفصیل بھی بہت دل چسپی کی حامل ہے۔ کتاب میں شامل دو درجن تاریخی تصاویر اس کی اہمیت بڑھانے کا سبب ہیں۔
ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء) جیسی ضخیم کتاب کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز مینگورہ (فون: 722517) نے کیا ہے۔ عمدہ کاغذ اور خوب صورت گٹ اَپ کی حامل یہ مجلد کتاب سوات کے تمام کتب فروشوں کے علاوہ پشاور میں یونی ورسٹی بک ایجنسی اور اسلام آباد میں سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ سے طلب کی جاسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں