ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

فطری اانصاف کے تقاضے

قانونی اور فطری انصاف کے تقاضے فطری انصاف کے اصولوں کے گرد گھومتے ہیں۔ فطری اصولِ انصاف دنیا کا سب سے بالا قانون ہے جس کے مطابق کوئی بھی کام کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ صحیح اور غلط کے پیمانے ہر معاشرہ اپنے رسم و رواج اور ثقافت کی رو سے بناتا ہے، جو کوئی انصاف کے حصول کا خواہش مند ہوتا ہے اس کو لازمی طور پر صاف ہاتھوں سے عدالت کے ساتھ رجوع کرنا ہوگا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ قانون ہر شہری کو فیئر ٹرائل کی اجازت دیتا ہے اپنے مقصد کے لیے جس میں کوئی بھی منصف نہیں بن سکتا۔ فریقین کی شنوائی کا حق قانون دیتا ہے، تکنیکی طور پر اس خیال کو شفاف اور فیئر ٹرائل بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی کی آواز کو بے اثر کرنے کی غرض سے زور زبردستی کی جاتی ہے، تو یہ فطری انصاف کے مسلم اصولوں کے خلاف ہے۔ فطری اصولِ انصاف مروجہ قانونی نظام کو ساتھ لے کر ’’قانون‘‘ انصاف کے قدیم ضابطوں کی طرف بہتا ہے۔
فطری انصاف یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے، جہاں پر انصاف قانونی دفعات کے توسط سے ملتا ہے۔ انصاف کا معیارجانچا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقی قانون بھی ہوتا ہے جہاں کسی انتظامی فیصلے کا حصول فطری اور قدرتی انصاف کے تقاضوں کے مطابق طے ہوتا ہے۔ تاہم قدرتی اور قانونی انصاف کو دو الگ جگہوں پر نہیں رکھ سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں جہاں قانونی تقاضے خاموش ہوتے ہیں، وہاں قدرتی اور فطری انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ جس طرح قانون اس کی وضاحت کرتا ہے، کسی بھی قانون کو اپلائی، اتھارٹی کرتی ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ حکومت اور ایگزیکٹیوز کو ’’قانون سب کے لیے یکساں‘‘ کوبنیاد بناکر نافذ کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو مد نظر ررکھتے ہوئے کسی بھی ادارے کا انتظامی فیصلہ کسی فردکے حق کو متاثر نہ کرتے ہوئے تعصب سے بالا تر ہو کر کیا جاتا ہے۔
میرا مطلب واضح ہے کہ فطری انصاف کے اصولوں کو لے کر انتظامی فیصلہ جات سے عوام کے حقوق کو یر غمال بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ عدالت ہو، پولیس ہو یا انتظامیہ ہو۔ شاذ ہی کسی لاچار اور غریب کی کوئی سنتا ہے۔ قانونی پابندی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے اور فریقین پر اثر انداز ہو کر نا انصافی کی جاتی ہے۔ فر یقین کو راضی نامہ اور رشوت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بالا دست ادارے صرف اشرافیہ کی سنتے ہیں۔ لیڈران کے کیسز کو ہائی پروفائل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیائی کوریج سے کیسز کو کمزور کیا جاتا ہے۔ حکمران اپنے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر تبادلے، تنزلی، ترقی اور اپنے مقاصد کو آسان بنانے کے لیے حکومتی اداروں اور اہلکاروں کو زیرِ اثر لاکر اپنا کام نکلواتے ہیں۔ اپنے گھر اور ٹاؤن اسکیم کے لیے پارکوں تک کو نہیں بخشتے۔ اس ضمن میں شہریوں پر بے جا پابندیاں انصاف کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہوتی ہیں۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر انصاف تک رسائی نہ ہونا بے انصافی نہیں، تو اس کو اور کیا کہتے ہیں؟
اپنا ملک اور وطن جس پر تنگ کیا جائے اور جہاں ہر کہیں پولیس چوکی اور چیک پوسٹوں پر اپنے ہی شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہو، جہاں آئین کے بنیاد ی حقوق ہی معطل دکھائے دیتے ہوں، جہاں انصاف کا حصول ہر کسی کے بس کی بات نہ ہو، جہاں جوڈیشل مارشل لا کی باتیں گردش کرتی ہوں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کی تردید کرتے ہوں، جہاں بد انتظامی کو ٹھیک کرنے کے لیے جوڈیشل فعالیت ضروری ٹھہرتی ہو، جہاں ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ سرکاری خرچے، مراعات اور لاکھوں روپے لے کر ساتھ ساتھ پرائیویٹ پریکٹس بھی اپنا حق مانتے ہوں، جہاں ایک جگہ ایک قانون اور دوسری جگہ دوسرا قانون ہو، جہاں لسانیت اور قومیت پرستی کی بنیاد پر خود ہی حکومتی اہلکارقانون کا کوئی ضابطہ خاطر میں نہ لاتے ہوں، جہاں ایک صوبے میں دہشت گردی ہو اور امن کا نام و نشان تک نہ ہو اور دوسرے میں بلٹ ٹرین، انڈسٹرئل زونز، معیشت میں روز افزوں ترقی، حکومتی قرضے،سبسڈیز وغیر ہ ہوں، ایک طرف غربت ننگی ناچ رہی ہو، دہشت گرد دندناتے پھرتے ہوں، امن وامان عنقا ہو اور دوسری طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو، ایک طرف حکومتی ترقی کے اہداف اور امن غیر یقینی ہو بلکہ اس میں بوجہ سیاسی چپقلش روڑے اٹکائے جاتے ہوں، تو اس طرح کے ماحول میں بغاوت ایک لازمی امر ٹھہرتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بغاوت اور انقلاب کے لیے حکمران خود ہی راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ہر سوں انقلاب کی آوازیں گونجتی ہیں۔ غیر یقینی کی صورتحال میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ لسانی عصبیت سر اٹھاتی ہوئی ہر پابندی کو توڑتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ تقریباً ہر جگہ پر ایسی بغاوتوں کے مطالبات کسی حد تک جائز ہوتے ہیں اور عوام میں اپنا اثر رکھتے ہیں۔ مسئلہ اس میں یہ بھی ہوتاہے کہ پہلے پہل ایک خودرو تحریک جنم لیتی ہے، بعد میں وہ تحریک بن جاتی ہے اور ہر آئینی اور قانونی پابندی کو توڑ کر نکل جاتی ہے۔ عوامی سیلاب کا زبردست ریلا سب کو خس و خشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ ایسی بغاوت میں لیڈر شپ کا فقدان اور لاپروائی سے صورتحال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے اور تباہی کااندازہ کم ہی لگایا جاتا ہے۔ میڈیائی کوریج نہ ہونا ایک الگ بات ہے لیکن ایسی بغاوت کو میڈیا یا کسی بھی دیگر ذرائع سے نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو توڑا جاسکتا ہے۔آخرِکار جو ریاست اپنے عوام کو محکو م جانتی ہے وہی عوام اس کے چلانے والوں کے لیے پھانسی کا پھندا ثابت ہوجاتے ہیں۔
مملکتِ خداداد پاکستان کے تمام یونٹوں میں استحصال کو روکا جانا چاہیے اور حکمرانوں کوہوش سے کام لے کر حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے۔ اداروں کو قانون کے اندر رہتے ہوئے انصاف پر مبنی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ مملکت اور عوام کے درمیان جو عمرانی معاہد ہ ہوا ہے، اس کی پاس داری کرلینی چاہیے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ عوام اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرتے ہیں لیکن ریاست آئینی و قانونی ذمہ داریوں کو نبھانے سے گریزاں ہے۔ فطری انصاف یہ ہے کہ جو یونٹ جس بھی پیداوار کو پیدا کرتی ہے، اس کو انہی وسائل پر حق دلا دینا چاہیے۔ اپنے وسائل پر اختیار فطرت کا تقاضا ہے، جس سے گریز مملکت کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں