روح الامین نایابکالم

بیوٹیفکیشن آف سوات

مجھے بیوٹیفکیشن آف سوات کے پراجیکٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں مانتا ہوں کہ سوات کے حوالے سے دوسرے بھی ضروری کام ہوں گے، جنہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانا لازمی سمجھا جائے گا، لیکن خوبصورتی بھی کائنات میں رنگ بھرتی ہے، دلوں کو گرماتی ہے، خوشیاں بکھیرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بہت خوبصورت پیدا کیا ہے، انسان اس خوبصورتی میں مداخلت کرکے اسے داغ دار بنا رہا ہے۔ اگر کوئی اسے دوبارہ خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے، تو اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
مانتا ہوں کہ غربت ہے، بچے گندگی میں کھانے کے ٹکڑے تلاش کر رہے ہیں، غریب لوگ دیواروں کے سائے میں بیٹھ کر سستا رہے ہیں اور سو رہے ہیں۔ اگر کچی اور بد صورت دیوار کی بجائے خوبصورت اور نقش و نگار والی دیوار کے سائے میں آرام کیا جائے، تو اس میں کیا برائی ہے؟
مگر ایک ارب بیس کروڑ روپے خوبصورتی پر لگائے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر کچھ تو نظر آنا چاہیے، تاکہ عوام کو تحریک انصاف کے کاموں اور ترقی کا کچھ تو اندازہ ہوسکے۔ چپکے چپکے، زمین دوز اور عوام کی نظروں سے اوجھل تو بہت سے ترقیاتی کام ہوگئے ہیں، جنہوں نے پورے صوبے کی کایا پلٹ دی ہے۔ لہٰذا کچھ رنگ روغن تو کھلے عام لگانا بھی ضروری تھا۔ پشاور میں اگر ’’جنگلہ بس‘‘ چلانا ضروری سمجھا گیا، تو سوات میں بیوٹیفکیشن کے نام پر کچھ ’’سرخی پوڈر‘‘ تو لگانا چاہیے تھا۔ اگر یہ بھی نہ لگایا جاتا، تو ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟
سوات میں جاری بیوٹیفکیشن پلان کو تو ہم اول اول ’’مینگورہ بیوٹیفکیشن پلان‘‘ سمجھ رہے تھے، کیوں کہ ساری لیپا پوتی مینگورہ میں جاری تھی، لیکن جب اس کے نام پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا، تو ’’سوات بیوٹیفکیشن‘‘ کے مطلب کو سمجھ گئے اور فوراً ’’مفاد پرست‘‘ بن کر یہ سوچنے لگے کہ اگر ہم غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، تو آخری خبریں آنے تک تو اپنا تاریخی اور یادگار گاؤں ’’منگلور‘‘ ضلع سوات میں ہی واقع تھا۔ آخر کیوں نہ کچھ لیپا پوتی منگلور میں بھی کی جاتی۔ پھر سوچا کہ منگلور تو خود خوبصورت ہے، مزید ’’سرخی پوڈر‘‘ کی کیا ضرورت ہے؟ البتہ خوبصورتی کے نام پر اگر ایک اہم اور شدید ضرورت کو نپٹادیا جائے، تو اسے غنیمت سمجھا جائے گا۔
منگلور بائی پاس روڈ کو عرصہ ہوا محترم مراد سعید نے شروع کیا تھا، لیکن بہ مشکل ایک کلومیٹر تعمیر کے بعد اسے آدھا چھوڑ دیا گیا۔ جب روڈ گاؤں کے اندر داخل ہورہی تھی، تو کام بند کیا گیا۔ اگرچہ گاؤں کے اندر اس کو بنانے کی زیادہ ضرورت تھی۔ بہانہ یہ کیا گیا کہ مستقبل میں گیس کنکشن کے لیے نئی روڈ کو کھودا جائے گا، لہٰذا گیس کنکشن سے پہلے روڈ کو پختہ کرنے کا کام عبث ہوگا اور سراسر ملک و قوم کا نقصان ہوگا۔ اب جب کہ اس روڈ پر تمام گیس کے کنکشن ختم ہوچکے ہیں، لہٰذا اب یہ تارکول ڈالنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اس لیے اب منگلور کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ باقی ماندہ کچی روڈ کو (شجاعت خان کے دیرے کی چھڑائی سے لے کر منگلور کے پرانے اڈہ تک) پختہ کیا جائے، تاکہ عوام کو بے شمار کھڈوں، نالوں، ندیوں اور گندے پانی میں سے گزرنے کے عمل سے گلو خلاصی حاصل ہو۔
منگلور کے عوام نے بیوٹیفکیشن کا کیا کرنا ہے۔ اُن کی یہ ضرورت پوری ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ یہ ایک ادھورا کام تھا، اس کو پورا کرکے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کی جائے گی۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں