حضرت علیکالم

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

گذشتہ دنوں مختلف اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ سوات میں مُردہ مرغیوں کی فروخت اور ان کا ریسٹورنٹ میں استعمال کے انکشاف ہوا ہے۔ اس کے بعد ای اے سی حمید خان اور ایس ایچ او مینگورہ اختر ایوب نے مین بازار چوک میں مرغی کے ہول سیل کا کاروبار کرنے والی ایک دکان پر چھاپا مار کر سیکڑوں کی تعداد میں مردہ مرغیاں برآمد کیں۔ اس کے علاوہ دکان دار عباس ولد شیر علی کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کردیا۔ واضح رہے کہ سوات میں ایک منظم گروہ مردہ مرغیاں خرید کر چکن روسٹ فروخت کرنے اور بعض ریسٹورنٹس کو کم قیمت پر دینے کے کاروبار میں سرگرم ہے۔ ان مرغیوں کی کڑاہی بنا کر گاہکوں کو بھی کھلائی جاتی ہے۔دوسرے روز ایک اور خبر آئی کہ عباس ولد شیرعلی کو پولیس نے منگل کو عدالت میں پیش کیا، جہاں ای اے سی نے ملزم کو 45 ہزار روپے جرمانہ کرکے پندرہ دن کے لیے جیل بھیج دیا۔
میرے خیال میں اس فیصلے سے باقی مردار مرغ فروشوں کو ایک طرح سے تحفظ ملا ہے۔ کیوں کہ دراصل بات صرف تین سو مردار مرغیوں کی نہیں ہے۔ غالباً سوات کے لوگوں نے اب تک لاکھوں کی تعداد میں مضرِ صحت مردار مرغیاں کھا ئی ہوں گی جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے صحت پر بُرے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی صرف ایک دکان نہیں بلکہ اس کی ملکیت میں چکن بروسٹ کی کئی دکانیں ہیں اور موصوف ایک عرصے سے ریسٹورنٹ بھی چلا رہا ہے۔ اگر یہ دوسرے ریسٹورنٹس کو مردار اور حرام مرغیاں فروخت کر سکتا ہے، تو اپنے ذاتی کاروبار میں عوام کو کیسے بخشنا گوارا کرسکتا ہے؟ اگر مذکورہ شخص کے خلاف کارروائی حقیقت پر مبنی ہے، تو اس کے لیے صرف پینتالیس ہزار کاجرمانہ اور پندرہ دن قید کافی نہیں ہے۔ ایسی نوعیت کے جرم کے لیے یہ ایک معمولی سزا ہے۔ اس فیصلے پر سوات کے عوام میں کافی مایوسی پھیل گئی ہے۔ آج اگر مذکورہ دکان سے تین سو مردار اور مضر صحت مرغیاں بر آمد ہوئی ہیں، تو ممکن ہے کل کو یہ اپنے کاروبار کو مزید آگے بڑھائے۔ لہٰذا یہ فیصلہ عوام کو ناقابلِ قبول ہے۔ بہترہوتاکہ اس کے تمام کاروبار پر پابند ی لگا دی جاتی۔ ایسا کیا جاتا، تو مستقبل میں کوئی بھی ایسا کرنے کی جرأت تک نہ کرتا۔ علاوہ ازیں، ان لوگوں کو بھی سزا ملنی چاہیے جو سستے داموں مردہ مرغیاں خرید کر اب بھی عوام کو فروخت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ فوڈ والوں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ ان کی ناک کے نیچے یہ ہوتا رہا، تب وہ کیا کر رہے تھے؟ اس سلسلہ میں عوام کو چاہیے کہ ایسے مردار مرغ فروش اور غلیظ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، جو ان کی جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ سوات کے عوام عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے پر سوموٹو ایکشن لیا جائے، کیوں کہ ایسے فیصلے عوام کے ساتھ کسی بھونڈے مذاق سے کم نہیں ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں