ڈاکٹر سلطان رومکالم

بحرانِ سوات کی طبقاتی جنگ کا پہلو(آخری حصہ)

اگرچہ یہ تحاریک اور المیے طبقاتی جنگ یا طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ نہ تھے، تاہم ان کا معاشی پہلو بہت اہم ہے۔ ریاستِ سوات کے اِدغام کے بعد سوات کے طبقۂ بالا و مراعات یافتہ طبقے کے ایک جرگہ نے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سے ایک ملاقات میں مطالبہ کیا کہ ملاکنڈ ڈویژن کو پس ماندہ علاقہ قرار دیا جائے۔ صوبائی حکومت کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہونے کے ناتے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی وغیرہ جیسے ٹیکس اس علاقے میں لاگو نہیں اور اس طرح ایک لحاظ سے یہ علاقہ ایک قسم کا ٹیکس فری علاقہ ہے۔ اس کی اس حیثیت کا پرولتاری یا غیر مراعات یافتہ طبقے اور یا بے زمین مزدور و مزارعین پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ وہ اس طرح کے بلا واسطہ ٹیکسوں کے زمرے میں نہیں آتے اور جو بالواسطہ ٹیکس ہیں، وہ ان کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اداکرنے ہی پڑتے ہیں۔ تاہم یہ ایک قسم کی ٹیکس فری حیثیت، بڑے مالکانِ اراضی، صنعت کاروں، مالکان ہوٹل اور تجارت پیشہ افراد وغیرہ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ وہ تمام بلاواسطہ ٹیکسوں سے مستثنا ہیں جو کہ بصورتِ دیگر ان کو ادا کرنے پڑتے تھے۔ حتیٰ کہ تمام سرکاری ملازمین جن میں بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس اور دوسرے محکمہ جات کے لوگ شامل ہیں، کو پاٹا میں نوکری یا خدمات انجام دینے کی صورت میں انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی۔ دلچسپ کہ سپریم کورٹ کے ایک از خود نوٹس کے نتیجے میں 2010ء میں سرکاری ملازمین کو ان کی تنخواہوں پر انکم ٹیکس ادا کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔
چوں کہ ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور طالبان کا نعرہ یہ بھی تھا کہ اسلام میں مسلمانوں پر اس طرح کے ٹیکسوں کا نفاذ جائز نہیں، لہٰذا یہ طبقہ بالا اور بورژوا اور ساتھ ہی ساتھ پاٹا میں تعینات سرکاری افسر و عامل ہی تھے ، جو تمام ریگولر نفاذ ملکی قوانین کے اس علاقے میں نفاذ کی وجہ سے مالی طور پر متاثر ہوتے۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں نے نہ صرف اخلاقی حمایت دی بلکہ بڑے بڑے چندوں اور دوسری صورتوں میں مالی اور مادی امداد بھی دی۔
اگرچہ فضل اللہ کے نائبین محمد عالم اور شاہ دوران اپنی ایف ایم ریڈیو تقاریر میں خوانین کے مظالم اور چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے اور خوانین کی دوسروں سے زبردستی چھینی ہوئی زمینوں کا اصل مالکوں کو واپسی کی بات بھی کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ خوانین سے ماضی کے مظالم کا بدلہ لیا جائے گا، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ خوانین و ملک کہلائے جانے والوں کو ان کی ذاتی جائیداد اور اراضی سے محروم کر دیا جائے گا۔ اور اگرچہ فضل اللہ کے غریب حامیوں کے ایک قلیل حصے کے اندر، ان کی کامیابی پہ زمینوں اور مکانات پر قبضہ کا تصور پایا جاتا تھا، اس لیے کہ وہ نہ صرف خوانین و ملک کہلائے جانے والوں بلکہ دوسرے مالکانِ اراضی کی زمینوں اور مکانات کے آپس میں بانٹنے کی بات بھی کرتے تھے، لیکن فضل اللہ اور اس کی تنظیم کا تنظیمی مؤقف اور پالیسی یہ نہیں تھی۔ فضل اللہ اور اس کے نائبین اس بات کو اپنے خلاف ایک پروپیگنڈا قرار دیتے تھے کہ ان کا مقصد خوانین کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی ریڈیو تقاریر میں تنظیمی طور پر بار بار اس نقطۂ نظر کی تردید کی تھی کہ وہ خوانین اور مالکانِ اراضی کی زمینوں اور جائیداد پر قبضہ اور ان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی زمینوں پر قابض ہونا نہیں چاہتے اور ان سے درخواست کی کہ وہ طالبان کی حمایت کریں۔ حتیٰ کہ انہوں نے ان خوانین و ملک کہلائے جانے والوں کی زمینیں اور جائیداد بھی تقسیم نہیں کی تھی، جو اُن کو مطلوب تھے۔ تاہم انہوں نے ان لوگوں سے جو ایسے افراد کی زمینیں بٹائیں یا نقد اجارہ پر کاشت کرتے اور یا ان کے باغات اجارہ پر لیے ہوئے تھے اور یا ان کی دکانوں اور تجارتی عمارات کے کرایہ دار تھے، سے کہا تھا کہ وہ ان فصلوں اور باغات وغیرہ میں ان مالکان کا حصہ اور رقم اور دکانوں اور تجارتی عمارات کے کرایے ان کے بجائے تحریک طالبان سوات کو ادا کیا کریں، جسے طالبان کے بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنا نقطۂ نظر اس حوالے سے واضح کیا تھا کہ وہ خوانین و ملکوں اور دوسرے کسی فرد کے بھی ان کی شان اور حیثیت کی وجہ سے مخالف نہیں اور یہ کہ وہ صرف ان لوگوں کے مخالف ہیں، جو اسلامی قونین کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذ شریعت محمدی) اور طالبان دونوں کا نعرہ شریعت یا اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، جو نہ صرف مالکانِ اراضی کی ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرنا ہے بلکہ اس کی ضمانت بھی دیتا ہے۔
سوات کے طالبان کے راہنماؤں نے اس کی بھی سراحت کی تھی کہ اسلامی نظام میں ایک خان کی دولت محفوظ رہتی ہے اور کوئی بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ تاہم اُسے بھی زنا، شراب اور دوسرے غیر اسلامی امور سے اجتناب کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ جب اسلامی قوانین کا نفاذ ہوگا، تو اللہ کی قسم کہ ہم کسی خان اور ملک پر حملہ کفر سمجھتے ہیں۔ فروری 2009ء کے معاہدہ امن کے بعد 21 مارچ 2009ء کو فضل اللہ نے اپنی تقریر میں خود ہی بتایا تھا کہ یہ جنگ نہ زمین کی حدود پر تھی، نہ جائیداد پر اور نہ دولت ہی کے لیے۔ یہ خان اور ملک کے خلاف جنگ نہیں تھی۔ یہ جنگ اللہ تعالیٰ کے قانون کے لیے تھی۔ تاہم انہوں نے ان افراد کے لیے اپنی دشمنی چھپائی نہیں رکھی تھی، جو ان کے مخالف تھے اور طالبان مخالف فوجی کارروائی کی حمایت کرتے تھے۔ ایسے افراد کو نہ صرف نشانہ بنایا گیا بلکہ کھل کے ان کو خبردار بھی کیا گیا تھا اور دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ محولہ بالا اہلِ قلم میں بعض کے دعوؤں اور مباحثوں کے برخلاف 2008ء میں طالبان نے نہ تو خوانین و ملک کہلائے جانے والوں کے اراضی اور باغات کو مزارعین میں تقسیم کیا تھا اور نہ یک گونہ اصلاحاتِ اراضی نافذ کی تھیں۔ وہ چند صورتیں جن میں زمینوں کو تقسیم کیا گیا تھا، در حقیقت خوانین و ملک کہلائے جانے والوں اور دوسروں کی زمینوں کے مزارعین اور ان لوگوں میں تقسیم نہ تھی جو زمین کی ملکیت نہیں رکھتے تھے بلکہ متعلقہ دعوے دار مالکوں کے درمیان ان کے حصوں کے حساب سے تقسیم تھی اور یہ بھی ان صورتوں میں ہوا جب ایسی زمینوں کے متعلق مقدمات اور دعوے طالبان کے پاس فیصلہ کے لیے لائے گئے۔
1970ء کی دہائی میں چلنے والی کسان تحریک سے منسلک لوگوں کا بہ حیثیت مجموعی ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور طالبان سے دور رہنا اور بہت سارے بااثر افراد اور بڑے بڑے مالکانِ اراضی کی ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور طالبان میں شمولیت اور موجودگی اور ساتھ ساتھ ان کی خوانین و ملکوں کے متعلق اپنی پالیسی اور نقطۂ نظر کی تنظیمی سطح پر وضاحت کا ثبوت ہے کہ ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور فضل اللہ تحریک نہ تو مزارعین کے بڑے مالکانِ اراضی مخالف تحریک تھے اور نہ اراضی سے متعلق اصلاحات ان کے ایجنڈے میں شامل تھیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ جن لوگوں نے سوات کے بحران کو طبقاتی جدوجہد اور طبقاتی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے، ان کی اکثریت اس بحران کے دنوں میں سوات میں تھی ہی نہیں اور یہ بھی کہ ان کی اکثریت نے نہ تو سوات کو دیکھا ہے اور نہ روزانہ کی بنیاد پر نشر ہونے والے طالبان راہنماؤں کی تقاریر ہی سنی ہیں۔
جو لوگ سوات کے بحران کو طبقاتی جنگ اور یا اسے طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ قرار دیتے رہے ہیں، انہوں نے بیشتر اور بلا تخصیص ’’جاگیر داروں‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تاہم سوات میں ایسا کوئی بھی فرد نہیں جس پر لفظ ’’جاگیردار‘‘ کا اس کی اصل روح میں اطلاق ہوسکے۔ جاگیرداروں اور خوانین کی اصطلاحات اور جو اہمیت و کردار بعض اہل قلم نے سوات کے بحران کی نسبت سے انہیں دیا ہے، وہ سیاق و سباق میں نہیں اور زمینی حقیقت بھی ان کی پشت بانی نہیں کرتی۔
سوات کا بحران دراصل کئی ایک مقامی، ملکی اور بین الاقوامی عوامل کا پیدا کردہ تھا، جس میں اہم کردار خفیہ اداروں کا تھا۔ جو لوگ اسے طبقاتی جنگ یا طبقاتی کشمکش کا رنگ دیتے ہیں اور اسے اسی صورت میں پیش کرتے ہیں، ان کو چند خوانین و ملک کہلائے جانے والوں اور بااثر افراد کا قتل اور جلا وطنی اور ان کے بعض املاک کی تباہی نظر آتی ہے، جس کا ذرائع ابلاغ نے پروپیگنڈا کیا تھا، لیکن غربا، زیردست، غیر مراعات یافتہ اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا قتل اور تباہی نہیں، جن کا کوئی پروپیگنڈا نہیں ہوا۔ جزوی اطلاعات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا موضوعی اور غلط نتائج پر ہی منتج ہوتا ہے ۔
یاد رہے کہ سوات کا یہ بحران اگر چہ طبقاتی جنگ یا طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ نہیں تھا، لیکن یہ اپنے جلو میں معاشرے میں اختیارات اور طاقت کی ہیئت میں مزید تغیر و تبدل اور شکست وریخت، اور علاقے کے سماجی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں مختلف الجہت اور دور رس اثرات والی تبدیلیاں لے آیا ہے۔
(تیئسویں پاکستان ہسٹری کانفرنس، منعقدہ کراچی بتاریخ 12اور 13مارچ 2013ء کے موقع پر راقم کے انگریزی میں پیش کردہ مقالے کی اردو تلخیص)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں