تصدیق حسین بابوکالم

دریاب او د ھغہ موج

بعض نام اور تخلص ایسے دلکش ہوتے ہیں کہ سنتے یا پڑھتے ہی دل کھینچ لیتے ہیں۔ ’’دریابؔ ‘‘ بھی میرے پسندیدہ تخلصات میں سے ایک ہے۔ میرے آج کے ممدوح کا نام بخت زر ہے اور تخلص دریابؔ ۔ جب کہ کتاب کا نام انہوں نے ’’موج‘‘ رکھا ہے۔ اب دریا میں موج یا طغیانی نہ آئے تو کیا ہو؟ صاحب موصوف کا یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ’’د احساس لمن‘‘ نامی شعری پڑاؤ سے بھی وہ اپنی پہچان کراچکے ہیں۔ آپ ایک نڈر، بے باک اور منھ پھٹ قسم کے ادیب ہیں۔ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ حق بات کے لیے بڑی بڑی جغادری شخصیات سے بھڑ پڑتے ہیں۔ سنگلاخ چٹانوں سے سر ٹکرانا آپ کو پسند ہے۔ مثلاً وہ سوات کے پانچ مشاہیر اسماء الرجال کے نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی مثال ایک خونی پنجے کی مانند ہے۔ اس پنجے نے سوات کے ادب کو دبوچ رکھا ہے۔ یہ لوگ نہ کسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ اور اگر وہ خود آگے بڑھنے کی کوشش کریں، تو چغلیاں کھا کر اُن کا پاؤں کھینچتے ہیں۔ یہ ایک مناپلی گروپ ہے۔ جنہوں نے سوات کے ادب کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سوات کے ادب کو جب تک اس پنجے سے آزاد نہ کرایا جائے، تب تک جونیئر ادیب اور شاعر اسی طرح کچلے رہیں گے۔ یہی بات ہمارے ایڈوکیٹ فیض علی خان فیض صاحب بھی ذرا مختلف پیرائے میں بیان کرتے رہتے ہیں۔ گویا یہ دونوں اس حوالے سے اپنی تحریروں اور تقریروں میں خوب ہلا گلا کرتے رہتے ہیں۔ جن کی انہیں ٹھیک ٹھاک دھمکیاں بھی ملتی ہیں، لیکن یہ سر پھرے ہیں کہ اپنی بات سے پھرتے ہی نہیں۔ (راقم الحروف کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔
شاعری اِک الہامی کیفیت کا نام ہے۔ کوئی شخص یکایک بیٹھے بٹھائے یہ اعلان نہیں کرسکتا کہ ’’اب میں شاعری کروں گا‘‘ بلکہ یہ خدا وندِ قدوس کی طرف سے ودیعت کی گئی اِک طاقت ہے۔ شاعر کے اندر اک غیر مرئی اثر یا تاثر موجود ہوتا ہے، جو اضطراری طورپر پیدا ہوتا ہے۔ اس کا تعلق رسمی تعلیم سے بھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مکتب و منبر سے بالاتر ہوتا ہے۔ بخت زر دریابؔ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جو واجبی سی تعلیم کے باوجود پختہ اور سنجیدہ شعر تخلیق کررہے ہیں۔
تنقیدی ادب ہمیں بتاتا ہے کہ شاعر جب شعر تخلیق کرتا ہے، تو بعض موضوعات پہ اُس کے سامنے کچھ مصلحتیں کھڑی ہوجاتی ہیں، جو اُس کے قلم کو محدود یا پابہ زنجیر کردیتی ہیں، لیکن بعض موضوعات پہ وہ کھلم کھلا لکھتاچلا جاتا ہے۔ بخت زر دریابؔ کے ہاں ہمیں ایسی رکاؤٹیں اور بندشیں نظر نہیں آتیں۔ وہ حقیقی اور عملی زندگی میں جس طرح ڈنکے کی چوٹ پہ بات کہتا دکھائی دیتا ہے، بعینہٖ اپنی تحریروں میں بھی وہی جوش، جذبہ اور ولولہ لئے ہمارے سامنے آن موجود ہوتا ہے، مثلاً:
ادب چی می د سوات د تعصب پہ مقراض غوس شو
دا سنگ بللے کیگی د قام سترگے شاعران
قام بہ سر خرو یہ وی ادب بہ خہ زلمے وی
چرتہ چی خاوند وی د ادب خکلے فیضان
آپ کی ادبی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آپ نے اِک طویل عرصہ سعودی عرب میں بھی گزارا۔ وہاں ’’رنڑا‘‘ نامی ادبی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ اور اسی نام سے ایک ادبی مجلہ بھی جاری کیا، جس کے آپ چیف ایڈیٹر رہے۔ ’’سباؤن‘‘ نامی سعودیہ ٹی وی چینل کے آپ نمائندہ بھی رہے جب کہ شاعروں، ادیبوں اور لکھاریوں کے لیے ’’خلیج‘‘ نامی ایوارڈز اور نقد مالی مدد جیسے کارنامے بھی آپ ہی کے مرہونِ منت رہے۔ آپ نے کالم بھی لکھے اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لیے مضامین بھی لکھے جب کہ مختلف ریڈیائی پروگرامز اس پہ مستزاد ہیں۔ پاکستان آکر آپ نے سوات میں ’’پختو ادبی کلتوری نڑیوالہ جرگہ‘‘ نامی تنظیم بنائی، جو مختلف اونچ نیچ کے باوجود اب اپنے ٹریک پہ آگئی ہے، جس نے کئی ایک کامیاب ادبی پروگرامز کئے ہیں۔ جن میں مختلف کتابوں کی تقریب رونمائی کے ساتھ ساتھ بہترین شعری و نثری کتابوں کو ایوارڈز اور حوصلہ افزائی کی اسناد کی تقسیم شامل ہے۔ اُن کا اِک شعر ہے:
نہ شرخوخے یم دریابؔ او نہ کینہ کڑم
شماروی می بس عبث پہ جنگیالو کی
دیارِ غیر میں انسان کو وطن اور لیلائے وطن کی یادیں خوب ستاتی ہیں۔ اسی تناظر میں آپ لکھتے ہیں:
ستا یاد می پہ سینہ کے لکہ موج دے د دریاب
جانانہ ستا دیدن می پہ وطن کی شو نایاب
دریاب چی دی د حسن د دریاب چپو کی گیر کڑم
یم خوخ پہ دے چپو کے مدام دغہ سے غرقاب
ذرا رعایت لفظی بھی ملاحظہ ہو
تصویر د تصور تہ می د سترگو اوخکے توئی شی
شپہ تیرہ شی د خوب نہ دے دلدارہ اوویستم
اپنی کم مائیگی اور دنیا کی بے ثباتی کو کچھ اس انداز میں شعر کا جامہ پہناتے ہیں۔:
لکہ خس پہ سر د آب بہ وی دریابہ
پہ معنی چی د دے د ہر مفہوم نہ شی
آپ کی شاعری کے موضوعات قومیت، انسانیت اور آفاقیت کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں سادگی اور سلاست کے ساتھ ساتھ تشبیہ، استعارے اور کنایے جیسی فنی نزاکتیں بھی بڑے اچھوتے دروبست کے ساتھ موجود ہیں، جو آپ کی واجبی تعلیم کے باوجود بھی آپ کی فنی گرفت کی دلالت کرتی ہیں۔ آپ ایک روشن خیال اور ترو تازہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم ’’دریاب‘ؔ ‘ کی مزید تہہ میں جانے سے احتراز کرتے ہوئے اتنا ہی کہیں گے کہ آپ کی ’’موج‘‘ میں غزلیہ ہیروں کے ساتھ ساتھ پابند، معرا اور آزاد نظموں کا اِک جلترنگ بھی موجود ہے، جس میں دریابؔ صاحب کی طغیانیاں اپنی جولانیاں دکھاتی نظر آتی ہیں۔ سچ پوچھئے تو مجھے غزل کے مقابلے میں اُن کی نظموں کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ جن میں وہ کھل کر اپنا مافی الضمیر بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’زلمیہ‘‘، ’’جانان‘‘، ’’پختونستان‘‘،’’زندان‘‘ اور ’’د صحرا ونہ‘‘ آپ کی نمائندہ نظمیں ہیں۔ دو سو صفحات کی اس خوبصورت اور مجلد کتاب کی قیمت بھی دو سو روپیہ ہے۔ جسے شعیب سنز نے زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے۔ اُن کے اس خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
سوچی د تضاد تارونہ غوس نہ کڑو او یو نہ شو
دغہ سے جنگونہ بہ اغیار زمونگ پہ کور کوی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں