فضل مولا زاہدکالم

سمندر کا بلاوا (آخری حصہ)

آدم پال اپنی کتاب ’’سی پیک ترقی یا سراب‘‘ میں صفحہ نمبر 134 پر ’’بیرونی سرمایہ کاری کا کردار‘‘ کے موضوع پر جوبحث کرتے ہیں۔ اس کے مطابق یہ خیال بالکل خام ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری سے خوشحالی آتی ہے۔ وہ چین ہی کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، جہاں گذشتہ دو دہائیوں میں دنیا کی سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کی گئی۔یورپ، امریکہ اور دُنیا بھر کی کمپنیوں نے چین میں بڑے پیمانے پر صنعتیں لگا کر روزگار پیدا کیا، لیکن آج واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس تمام تر بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجے میں چین میں خوشحالی اور استحکام نہیں آیا بلکہ غربت، بھوک اور بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آج چین کی معیشت زائدپیدا وار کے بحران میں مبتلا ہو کر سست روی کا شکار ہے اور بڑے پیمانے پر صنعتوں کو بند کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب اس سرمایہ کاری نے محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتے ہوئے انہیں غربت اور ذلت میں دھکیلا ہے۔ وہاں صرف ایک اقلیتی طبقے کی دولت میں اضافہ ہوا ہے لیکن امارت اور غربت کی خلیج میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوچکا ہے۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یہاں پر سرمایہ کاری سے معیشت نے ترقی کی نہ بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوا، نہ بجلی کا بحرن حل ہوا اور نہ عوام کو کسی قسم کا فائدہ ہی مل سکا بلکہ پہلے سے موجود یہ تمام مسائل شدت کے ساتھ مزید بڑھ گئے۔ جبکہ سرمایہ کار کمپنیوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ اور وہ ایک ڈالر کے بدلے میں درجنوں ڈالر لے کر ملک سے باہر چلے گئے۔
بات اگر تبدیلی کی ہو، تو بلوچ تناظر میں ’’برٹش راج‘‘ کے کئی منصوبے مثلاً ہزاروں کلو میٹر طویل سڑکیں، ریلوے لائینز، ٹنلز، پُل، ٹیلی کمیو نی کیشن اورفوجی چھاؤنیاں یہاں کے عام لوگوں کی معاشی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں۔ کیوں کہ ان منصوبوں کے پیچھے جو منطق تھی، وہ لوگوں کی معاشی بہتری نہیں بلکہ خاص مقاصد مثلاً اقتدار کو دوام بخشنا، گرم پانی تک روس کا راستہ روکنا اور عمومی استحصال تھا۔ اسی طرح موجودہ سی پیک منصوبوں کا مقصد اور کچھ بھی نہیں بلکہ صاف صاف چین کے کاروباری معاملوں کو ترقی دینا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کے لیے سی پیک کے چھے سو ملین ڈالر کا حصہ یہاں کیا تبدیلی لا سکے گی؟ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے بھی پاکستان میں شمولیت کے بدلے بلوچستان کی خود مختاری قائم رکھنے کے لیے اس کو خصوصی حیثیت اور خصوصی ترقیاتی پیکیج دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ الحاق کے بعد، اس صوبے کو دیدہ و دانستہ پسماندہ اور محروم رکھنے کی روش اپنائی گئی، تا کہ یہاں کے وسائل پر قبضہ آسان ہو۔ پانچ سال کے اندر اندر گیس کو پنجاب کے دور دراز علاقوں تک پہنچایا گیا اور یہاں کے لوگوں کی تقدیر میں مٹی،دُھوئیں اور محرومیوں کے انبار ہی چھوڑے گئے۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ چین کو گوادر کی ضرورت ہے اور بدلے میں وہ پاکستان کے مخصوص حصے کو اربوں ڈالرز کے فنڈز، مشرقی روٹ، اورنج ٹرین، میٹرو لائن، موٹر ویز اور انرجی کے منصوبوں سے ’’نواز‘‘ رہا ہے۔ یہ ہے سی پیک پر ’’بلوچ پَرسپی کٹیو۔‘‘
چین کی آبادی کچھ ہی عرصے میں ڈیڑھ ارب تک پہنچنے والی ہے۔ اس وقت کم و بیش ایک ارب چالیس کروڑمنھ تین چار وقت روزانہ کچھ کھانے کو مانگتے ہیں۔ اپنے ایک دوست ہیں، رشید احمد اخوند۔ اُن کا فرمان ہے کہ ’’چین کا قومی جانور ڈریگن یعنی ا ژد ہا ہے، جو منھ کھولے، تو بیک وقت بہت کچھ ڈکارے بغیر ہڑپ کر سکتا ہے۔‘‘ ڈرو اس وقت سے جب سمندر وں سے زیادہ گہرائی اور کے ٹو سے زیادہ اونچائی رکھنے والا دوستی کی بھیس میں یہ اژدھا کہیں ہمیں یوں ہڑپ نہ کر ے کہ کسی کو کانوں کان پتا بھی نہ چلے۔تکلف برطرف ہو، تو کہوں کہ حکم ران ہمیں اژدھے کے منھ میں ڈال رہے ہیں۔ ہو سکے تو جلدی جلدی کہیں بھاگنے کی تیاری کریں۔
ایک ہیگوادر کے ’’اہل و عیال‘‘ جو صرف سمندر کے کھوپوں میں دیکھتے ہیں اور اُن کھوپوں میں زندگی کے پُرفریب خواب دیکھتے دیکھتے مرکھپ رہے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ اُن کو گوادر جیسی ’’ڈریم سٹی‘‘ کے سہانے سپنوں میں ڈبونے کی کوششوں میں مصرف ہیں۔
گوادر کا جوان کوئی سپنا دیکھتا ہے، تو یہ کہ کوئی نئی نویلی سی، رنگین سی، خوب صورت سی کشتی ہو جس پر لکھا ہو ’’کیچ می اِف یو کین۔‘‘ گوادر کے طول و عرض کے لوگ اس کشتی کو دیکھنے آتے ہوں۔ یہ ایک دم یہاں سے اُچھلتا ہواور ایران کے بارڈر پر برآمد ہوتا ہو، وہاں سے نکلتا ہو اور یہاں پسنی میں درآمد ہوتا ہو۔ دیکھنے والے اس کی مہارت کے گن گاتے ہوں اورآٹوگراف کے نام پر یہ تماش بینوں کی ہتھیلیوں پر اپنا انگوٹھا چاپ دستخط کرتا ہو۔گوادر ی کُڑی کوئی ڈریم دیکھتی ہے، تو یہ کہ وہ اپنے ’’اُس‘‘ کے ساتھ کسی آرام دہ کشتی میں دور کہیں دور ہنی مون منانے نکلے،سمندر کی بپھری لہریں کشتی کو چھیڑیں تو ’’یہ‘‘ اپنے ’’اُس‘‘ کو گود میں وَرغلائے اور جب لہریں پُر سکون ہوں، تو وہ ’’اِس‘‘ کو گود میں سُلائے۔ بزرگانِ گوادر خواب دیکھتے ہیں، تو پانی کا چلتا ہوا نلکا دیکھتے ہیں۔ خواب ہی میں پہلے مسکراتے ہیں، پھر روتے ہیں۔ خواب ہی میں پوچھنے والا پوچھتا ہے، مسکراتے کیوں ہو؟ بولتا ہے، اس لیے کہ زندگی میں پانی کا نلکا، وہ بھی چلتا ہوا پہلی بار جو دیکھا۔ پھر روتے کیوں ہو؟ اس لیے کہ جاگ جاؤں گا، تو یہ نلکا پانی نہیں، صرف ہوا خارج کرے گا۔ پلیز، مجھے سویا رہنے دو، مجھے انجان رہنے دو۔ محمد تابش صدیقی کہتے ہیں:
مجھے کچھ دیر رہنے دو
سحر انگیز خوابوں میں
مجھے منزل نظر آتی ہے
صحرا کے سرابوں میں
مجھے لاعلم رہنے دو
مجھے انجان رہنے دو
اس بات پر گوادر کاپیچھا چھوڑ دیتے ہیں کہ پاکستانی حکومت تو اب بے بس ہے، جو ہونا تھا ہو گیا اور ’’آگے وہی ہوگا، جو منظورِ چین ہوگا۔‘‘ اب بھی وقت ہے کہ حکمران گوادر کے متعلق مزیدسبز باغ دکھانے کی بجائے کم از کم یہ اُصول طے کرلیں کہ کوئی بھی غیر ملکی ذاتی یا ادارہ جاتی، کسی بھی شکل اور کسی بھی حیثیت میں پاکستان میں جائیداد یا پراپرٹی کا مالک بن سکتا ہے نہ پارٹنر۔ اسی طرح کوئی بھی پاکستانی اپنی جائیداد کسی بھی غیر ملکی شخص، فرم یا ادارے کو فروخت کرنے کا اختیار نہیں رکھے گا، نہ کسی غیر ملکی کو پارٹنر بنائے گا۔ اس کے لیے کوئی قانون سازی کرنی ہو، تو فوری کی جائے یا قانون میں کوئی ’’ماڈی فکیشن‘‘ کرنی ہو، تو کی جائے۔ یہ قانون سازی ایسی ہو کہ مستقبل میں اس کو کوئی چھیڑ نہ سکے۔ ایسا نہیں ہوگا، تو کوئی بعید نہیں کہ گوادر بننے کے بعد کچھ ہی عرصے میں چین کی حکومت خود یا اپنے اداروں یا شہریوں کے ذریعے زمینیں خرید کر یہاں کے ساحل و وسائل کے مالک بن جائے اور ہم فلسطینیوں کی طرح در بہ در کی ٹھوکریں مارتے پھریں ۔
’’سمندر کا بلاوا‘‘جس کو اعجاز عبید صاحب نے ترتیب دیاہے ،میں میرا جیؔ فرماتے ہیں
یہی تو زمانہ ہے ، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں یہ بستی،یہ جنگل،یہ رستے ،یہ دریا،یہ پربت،عمارت،مجاور۔ مسافر
ہوائیں،نباتات اور آسماں پر اِدھر سے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ سب کچھ ،یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے
زمانہ ہوں میں، میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں
ابھی سفر جاری ہے، ابھی روداد جاری ہے۔ گوادر کی تین حسین راتوں کی کہانیاں ہیں۔ جیونی کے سورج غروب ہونے کے دلفریب تماشے ہیں۔ ایرانی بارڈر کا ہل چل ہے۔ تربت کی زیارت ہے،جو ہے تو پاکستان لیکن بجلی، پیٹرول اور بہت سارے خوردنی و غیر خوردنی اشیا ایران سے آتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی کے مالک تھوڑی ہیں، ہوتے تو عین اِسی وقت سوات کو ’’داغِ مفارقت‘‘ دے کر تربت میں اپنے سپنوں کی ’’ہٹی‘‘ کھولتے اوروہی کے ہو جاتے۔ وہاں سے واپسی پر پنجگور کے صحراؤں میں ریت کی بارش سے آشنا ہو کر قافلے کاسندھ میں دخول و خروج، لاڑکانہ میں بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزار کا دیدار اور دیگر بہت سارے واقعات کی باتیں تو ابھی کرنی ہیں، لیکن اگلی نشست میں۔
یار زندہ صحبت باقی!
علامہ محمد اقبال کا شکریہ ، جنہوں نے یہ شعر کہہ کر بات ختم کرنے میں ہماری رہنمائی کی۔
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں