احسان علی خانکالم

بڑے میدان میں چھوٹے کھلاڑی کا پہلا دِن

نئی آبادیوں اور تعمیرات کا تسلسل اسی طرح برقرار رہا، تو محلے کے لڑکوں کو اپنے علاقہ میں دستیاب واحد کھیل کے میدان کی فکر کھانے لگی۔ میدان بھی کیا، ایک چھوٹا سا پلاٹ جس میں بمشکل دس بارہ مرلے کا مکان بنایا جاسکتا تھا۔ قومی کھیل ہاکی سے قطع نظر ہمارے ہاں بھی کرکٹ ہی محبوب کھیل تھا۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے گیارہ کی بجائے بہ امر مجبوری سات آٹھ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم بنتی تھی۔ دو ٹیمیں بنتیں، گیند اگر کسی بلے باز کے ہاتھوں اڑوس پڑوس کے مکان کی چھت کی نذر ہوتی، تو بلے باز کی ٹیم کے ذمہ دوسری گیند کا بندوبست کرنا ہوتا تھا۔ اب ان کی مرضی، چاہے تو گرم مزاج کے حامل پڑوسی مالک مکان سے گفت و شنید کرکے پرانی گیند واپس لے آئیں یا پھر نئی گیند کا بندوبست کیا جائے۔ لیکن عموماً ٹیم کے ہر کھلاڑی پر یہ بات واضح کی جاتی کہ جس نے بھی گیند مذکورہ چھتوں میں سے کسی ایک پر اچھالی، واپس بھی اسے ہی لانا پڑے گی۔ گیند گم جانے کے ڈر سے بسا اوقات شاہد آفریدی اور کرس گیل کے پایہ کے کھلاڑی سامنے آتے آتے رہ جاتے۔
خیر، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمیں دستیاب واحد پلاٹ نما میدان بھی نئی آبادی کی نذر ہوگیا۔ وہاں پرانے گھر میں بیٹھے مکینوں کو نئے گھر کے تعمیراتی کام کی شروعات کی خوشی تھی، تو یہاں اس دن سوگ کا سماں تھا۔ تین چار ہفتے ایسے ہی گزر گئے۔ پر کرکٹ کھیلنے کی آس دبائے نہ دبی۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ علاقہ سے دور بڑے کھیل کے میدان میں ہر جمعہ کرکٹ کھیلنے جایا جائے، یوں کرکٹ کھیلنا بند بھی نہیں ہوگا اور جمعہ کا دن ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے بہتر طریقے سے گزر پائے گا۔
ایک دن جمعہ کے دن کھیل کے میدان میں گئے، تو پہلے تو گمان ہوا جیسے یہاں کوئی سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہو۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تو حدِنگاہ مختلف قسم کے کھلاڑی رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ میدان کا ایک کونہ فٹ بال کے لیے مختص تھا۔ وہاں کرکٹ کے منچلوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ فٹ بال کے کھلاڑی بھی ایک خاص حد سے آگے آنے سے کتراتے تھے۔ بڑی مشکلوں سے ایک جگہ ملی، تو آؤ دیکھا نہ تاؤ، وکٹیں گاڑ دیں۔ بعد میں احساس ہوا کہ پاس کوئی نو دس فٹ کے فاصلے پر پہلے سے ہی وکٹیں موجود ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر ہماری یا ان کی ٹیم کے بلے باز غلطی سے بھی ایک دوسرے کی حدود میں تیز ہِٹ ماریں، تو کسی کو بھی گیند لگنے سے دونوں اطراف خطرناک قسم کا خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ لیکن چوں کہ قدرے لمبا سفر طے کرکے آئے تھے اور کرکٹ کھیلنے کی تشنگی بھی تھی، اس لیے یہ خطرہ مولنے میں کسی نے خاص جھجھک کا اظہار نہیں کیا۔ ٹاس ہوا، تو ہماری ٹیم جیت کی مستحق قرار پائی اور آباؤ اجداد کی خاص روایات کا خیال رکھتے ہوئے اول ہم نے بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقررہ آٹھ اوورز کے مختصر دورانیے میں راقم کو بلے بازی کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ مخالف ٹیم کو اسّی رنز کا ٹارگٹ دیا گیا اور ہم فیلڈ سنبھالنے دوڑ پڑے۔ دو تین اوورز گزرگئے، تو میں نے بھانپ لیا کہ کپتان صاحب مجھے تو کبھی گیند بازی کرنے ہی نہ دیں۔ اس لیے آرام سے باؤنڈری لائن کی جانب فیلڈنگ کرنے کھسک گیا۔ اس لیے کہ وہاں فیلڈنگ نسبتاً آسان ہوتی ہے اور یہاں وہاں سے گیند آکر ’’یہاں وہاں‘‘ لگنے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ کچھ لمحے بعد اپنی خیالی دنیا میں کب داخل ہوا، پتا ہی نہیں چلا۔ اتنے میں کان کے پردے پھاڑنے والی شدید قسم کی آواز جو نہایت بدتمیزی سے دی جا رہی تھی، سننے کو ملی، تو واپس اپنی دنیا میں آگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مخالف ٹیم کے دونوں اینڈز پر موجود بلے باز، میری پوری ٹیم کے کل ارکان اور فارغ بیٹھے آس پاس کے تماش بین بہ یک وقت مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ مزید توجہ دی تو ’’کیچ کیچ‘‘ کے نعرے سر میں درد کا باعث بن رہے تھے۔ گھبراہٹ میں آسمان کی جانب نظر دوڑائی تو کوئی نصف درجن کے قریب گیندیں نظر آئیں۔ اب ’’اس میں ہماری والی گیند کون سی ہے؟‘‘ یہ سوچتے سوچتے دو تین گیندیں زمین پر پٹخ گئیں۔ اتبھی ندازہ ہوا کہ بیٹسمین آؤٹ ہو نہ ہو، اس کے کھاتے میں مزید سکور کا اضافہ ضرور ہوا ہے۔
القصہ، میچ ختم ہوا، ہم ہارگئے اور ہار کا ذمہ دار صرف اور صرف راقم کو قرار دیا گیا۔ چوں کہ جو کیچ میں نے لینا تھا، وہ مخالف ٹیم کے تگڑے بیٹسمین کا تھا، جو میچ کے آخری لمحات تک کریز پر ڈٹا رہا۔ اس لیے ہار کی ذمہ داری بھی مکمل طور پر مجھ پر تھوپ دی گئی۔
وہ دن اور آج کا دن، کبھی کرکٹ کھیلنے بڑے میدان کا رخ نہیں کیا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں