فضل رازق شہابکالم

شیخ سعدی

 

یہ تقسیم ہند سے پہلے کی بات ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے مولوی احمد حسن پرانی دلی میں رہتے تھے۔ اُن کا ذاتی پرنٹنگ پریس تھا۔ ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا۔ اُن کے پاس کئی ملازم کام کرتے تھے اور وہ بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے۔
ان تاجرانہ سرگرمیوں کے علاوہ وہ ایک نہایت اچھے اُستاد بھی تھے۔ فارسی علم و ادب پر اُن کو عبور حاصل تھا اور وہ اپنے مکان پر اُردو اور فارسی کے ایم اے وغیرہ کے طلبہ کو ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ جو بچے سوات سے حصول علم کے لیے دہلی جاتے، اُن کی بھی مقدور بھر اعانت کرتے تھے۔ انھوں نے بعض مشہور فارسی شعرا کی کتابوں پر حواشی اور شرح لکھے جو طلبہ میں بہت مقبول ہوئے۔ کیوں کہ ان میں استعمال کی گئی فارسی عام فہم ہوا کرتی تھی اور طلبہ کے ذہنی استعداد کے مطابق تھی۔ غرض یہ کہ وہ ایک مستند فارسی دان تھے۔ فارسی کے علاوہ اُردو لٹریچر کی تدریس میں بھی منفرد انداز کے مالک تھے۔ غالب کے شارح تھے اور اردو طلبہ میں بہت مقبول تھے۔
اُن کی زندگی پر سکون انداز سے گزر رہی تھی کہ اچانک تقسیم ہند کا اعلان ہوا اور پورا برصغیر مذہبی فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ منافرت کی اس آگ میں انسانی اقدار جلنے لگیں اور انسان کی وحشیانہ فطرت کے وہ مظاہر دیکھنے میں آئے جن کا تصور بھی ہول ناک ہے۔ لاکھوں مردو زن اور معصوم بچے لقمۂ اجل بن گئے۔ لوگ جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ لاکھوں کیا بلکہ کروڑوں بے گھر ہوکر مہاجرین کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ بڑے بڑے ذی شان اور صاحبان ثروت لٹ پٹ کر بھکاریوں کی طرح در بہ در پھرنے لگے۔ اتنا بڑا انسانی المیہ شاید تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
مولوی احمد حسن صاحب بھی اس طوفان کی زد میں آگئے اور بے چارے اپنا چلتا کاروبار اور ہزاروں نایاب کتب اور مسودے چھوڑ کر صرف ایک تہمد اور ایک کرتے میں اپنی جان بچاتے ہوئے اپنے آبائی وطن سوات آگئے۔
اوسان بحال ہوئے تو ریاست سوات کے علم پرور ولی عہد میاں گل جہانزیب کی خدمت میں حاضر ہوئے، انھیں اپنی داستان بے کسی سنا کر دست گیری کے طالب ہوئے۔ انھوں نے اُن کو بتایا کہ ریاست کے اساتذہ کی تن خواہیں تو بہت کم ہیں لیکن آپ کی علمی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ بہر حال اگر آپ راضی ہوں تو آپ کو ماہانہ سو روپیہ تک تن خواہ دے سکتے ہیں۔ 1947ء میں یہ بہت بڑی رقم تھی اور دیگر تمام اساتذہ بہ شمول ہیڈ ماسٹر کے، ان سب کی تن خواہوں سے زیادہ تھی۔
مولوی صاحب کچھ دیر تو خاموش رہے اور پھر نپے تلے مگر مؤد ب انداز میں کہا: ’’اتنی تن خواہ تو میں اپنے پریس منیجر کو دیا کرتا تھا۔ مجھے یہ منظور نہیں اور دفتر سے نکل کر اپنے گاؤں چلے گئے۔ وہ نہایت خوددار تھے اور زیادہ طویل مدت کے لیے اپنے رشتہ داروں پر بوجھ بننا پسند نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے ایک گدھے کا بندوبست کردیا اور تلیگرام کے قریب ملنے والے سخت ترین پتھر سے گھریلو استعمال کی چھوٹی ہتھ چکیاں بناتے۔ ان کو گدھے پر لاد کر مینگورہ لے جاتے۔ ان دنوں ان چکیوں (میچن) کا استعمال عام تھا اور ہر گھر میں خواتین ان کو مختلف چیزوں کے پیسنے کے لیے کام میں لاتی تھیں۔ نہ جانے کتنی مدت گزر گئی۔ ایک دن وہ گدھے پر چکیاں لادے مینگورہ کی طرف آرہے تھے۔ میاں گل جہانزیب کار میں جارہے تھے۔ اُن کی نظر مولوی صاحب پر پڑی تو فوراً کار رکوالی اور اُتر کر ان کے پاس آگئے اور کہا کہ یہ کیا ہیئت کذائی بنائی ہوئی ہے؟ مولوی صاحب نے کہا: ’’صاحب! یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ میری تقدیر میں یہ دن دیکھنے تھے، سو اب بھگت رہا ہوں۔‘‘
والی صاحب نے پھر اپنی پیش کش دُہرادی۔ اس بار مولوی صاحب نے انکار نہیں کیا اور اگلے دن ہی ودودیہ ہائی اسکول میں تدریس کا آغاز کر دیا۔ اُن کو اسکول کے قریب، جہاں آج کل بچوں کا پارک ہے، ایک اچھا سا گھر رہنے کو دیا گیا۔ یہاں پر وہ ملازمت کے اختتام تک رہے۔ برسبیل تذکرہ یہ عرض کروں کہ مرحوم مولوی صاحب شاید اسّی سال سے زیادہ کی عمر میں ریٹائر ہوگئے تھے۔
یہ اندازہ میں اس لیے لگار ہا ہوں کہ 1958ء میں جب وہ میٹرک میں میرے اُستاد تھے ۔تو اُن کے ہاتھوں میں شدید رعشہ ہوا کرتا تھا اور وہ چائے کی پیالی بھی نہیں سنبھال سکتے تھے۔ ہماری کاپیوں پر دست خط کرتے تو’ ’احمد حسن‘‘ لکھنے میں کئی سیکنڈ لگتے تھے۔ اُن کے سارے دانت جھڑ گئے تھے اور مصنوعی بتیسی لگاتے تھے۔ اس عام تر ضعیف العمری کے باوجود اُن کے علمی تبحر میں کوئی کمی نہیں آتی تھی۔ وہ اس عمر میں بھی سائیکل پر اسکول آتے تھے۔ اُسی سائیکل پر جو اُن کی طرح بوڑھا لگتا تھا۔مینگورہ جاتے تھے اور گھر کا سودا لاتے تھے۔ اُن کی اولاد اُن کی طرح ذہین نکلی۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بڑے عہدوں تک جا پہنچے۔ تعلیمی اداروں کی سربراہی کی اور تعلیمی شعبے میں شان دار خدمات انجام دیں۔ ان میں پروفیسر فضل اللہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
یہ ہے مختصر حالات، اس عظیم ہستی کے جن کو سوات کے تعلیمی حلقے’ ’شیخ سعدی‘ ‘کے نام سے جانتے تھے اور یہ نام اتنا مشہور ہوچکا تھا کہ کسی کو شاید یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کا اصلی نام ’’مولوی احمد حسن‘ ‘ہے۔
ہم نے اپنے لڑکپن میں اتنا خود دار بوڑھا کہیں نہیں دیکھا تھا جو سائیکل پر چڑھنے کے لیے بھی جوان کا سہارا نہیں لیتے تھے بلکہ سڑک کے کنارے اونچے چبوترے کے قریب کھڑے ہوکر سائیکل پر سوار ہوتے تھے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں