پروفیسر سیف اللہ خانکالم

پاکستانی قوم: دنیا کی چوتھی ذہین قوم

روزنامہ آزادی نے 24اپریل 2018ء کو جناب محمد زبیر صاحب کا کالم بعنوان ’’120ذہین ممالک، پاکستان چوتھے نمبر پر‘‘ شائع کیا ہے۔ جس کی ایک پیراگراف میں آپ نے تحریر کیا ہے کہ ’’یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن کے مطابق دنیا کے ایک سو بیس ذہین ممالک میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے‘‘ اور دنیا بھر میں اس کا چرچا ہے۔
تھوڑا سا سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم ذہین ترین ہے بلکہ میں تو یہ عرض کروں گا کہ یہ لوگ چوتھے پر نہیں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ پاکستانی مارکیٹ میں تقریباً ہر چیز کی خود ساختہ قسم دستیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اصل سے نقل زیادہ عمدہ ہوتا ہے ۔کسی چیز کا نقل بنانا غیر ذہین آدمی کبھی نہیں کرسکتا۔ پہلے پہل دیسی اسلحہ درہ آدم خیل میں بنتا تھا جو خوبصورتی اور کارکردگی میں اصل کے قریب تر ہوتا تھا۔ یہ آج بھی زیادہ نفاست کے ساتھ بنتا ہے بلکہ بے شمار اشیا کی نقول ملک کے تمام حصوں میں بنتی ہیں اور عوام کی طرف سے بہت کم شکایت کے ساتھ کامیابی کے ساتھ استعمال ہوتی ہیں۔ ہم احتیاط کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب نقلی اشیا صرف ذہین لوگ ہی بناسکتے ہیں۔ چینیوں میں بھی یہ خاصیت موجود ہے لیکن اُن کو پاکستانیوں پر دو فوقیتیں حاصل ہیں اور وہ یہ کہ ایک اُن میں جدید تعلیم زیادہ ہے۔ اُن کو یہ ذہنی الجھن نہیں ہے کہ اصل تعلیم یہ ہے وہ نہیں۔ مسلمانوں میں یہ مسئلہ پوری شدت کے ساتھ گذشتہ تین چار صدیوں سے موجود ہے۔ اس لیے ہمارے سوچنے والے افراد الجھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔ دوسری فوقیت جو چینیوں کو حاصل ہے، وہ مخلص اور قابل قیادت ہے۔ پاکستانی عوام کو درکار قابلیت کی لیڈر شپ دستیاب نہیں ہے۔ ان دو وجوہات کی بنا پر پاکستانیوں کو یکسوئی، مساوات، عدل، احساس تحفظ اور رہنمائی حاصل نہیں ہے۔ اگر یہ دونوں ضرورتیں ان کو میسر ہوں، تو پھر یہ شاید بہت زیادہ آگے بڑھیں۔ پاکستانی عوام بے شمار مسائل کے باوجود دنیا میں چوتھے درجے پر پائے گئے ہیں۔ بہت ساری رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود پاکستانیوں کا جوہری (ایٹمی) قوت حاصل کرنا ان کی قابلیت کی نشانی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں پاکستانی لوگ بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جن کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ ہر ایک کوشش اور چیز کا توڑ نکالنا پاکستانیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ علما بتا تے ہیں کہ’’ امیر‘‘ کا مطلب ہے رہنما اور’’ امام‘‘ کا مطلب ہے اصلاح کرنے والا ۔اگر احتیاط سے دیکھا جائے تو پاکستانی ان دونوں ہستیوں سے محروم لوگ ہیں۔ رہنما وہ ہوسکتا ہے جو خود درست راستے کو جانتا ہو اور اُسی کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ اصلاح وہ آدمی کرسکتا ہے جو خود اس کام یا علم کا ماہر ہو۔
ہماری مساجد میں آسمانوں سے اوپر اور زمین کی سطح سے نیچے کے معاملات پر تقاریر ہوتی ہیں ۔وہ بھی ایسے علوم نہیں کہ وہ اجرام فلکی کا علم جانتے ہیں یا زیر زمین معدنیات جغرافیائی تغیرات کے بارے میں علم رکھتے ہیں، لیکن وہ عذاب قبر وغیرہ کے باریک سے باریک واقعات بیان کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے دینی رہنما عربی میں اور ہمارے دنیاوی سردار انگریزی میں باتیں پسند کرتے ہیں۔ قوم کی زیادہ تر آبادی کی تربیت ٹی ویز کے مسخرے اور بہروپئے کرتے ہیں۔ جن کی نہ زبان اپنی ہوتی ہے، نہ رنگ اپنا ہوتا ہے اور نہ لباس و اطوار۔ اس کے علاوہ کرپشن کے ماحول نے پاکستان اقو ام کی تخلیقی قوتوں اور عام قوت کار کو کافی کمزور کیا ہوا ہے۔ واپڈا کی کمزوریوں، نچلی چوریوں اور مارکیٹ سے متعلق بدعنوانیوں نے عوام کی قوتوں کو آدھے سے بھی کم کردیا ہے۔ اس کے باوجود یہ محروم عوام قابلیت میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ اگر اس قوم کو اچھے دنیاوی رہنما اور اچھے دینی رہنما مل جائیں تو یہ لوگ دنیا بھر کے لیے ثواب کے سبب ہوں گے۔ جماعت کو قائم رکھنا اور امام و امیر کی اطاعت کرنا اسلام کی اہم ہدایات میں سے ہے۔ کسی بھی ذہین شخص یا ذہین قوم کی صلاحیتوں کو ناکارہ کرنے اور اُن کو الٹ چلانے کے لیے اُن کا ذہنی سکون برباد کیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ پاکستانی اقوام کے خلاف دیدہ اور نادیدہ دونوں دشمن روزِ اول سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ بلکہ اب تو ذہین دشمنوں کا ایک کامیاب طریقہ یہ بھی ہے کہ ذہین اقوام کو یا تو اچھی تعلیم سے دور رکھو۔ اگر پھر بھی لوگ بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تو وہاں کی تعلیم کو مختلف طریقوں سے ناکارہ بناؤ۔ اس طرح قوم بہتر امیر اور بہتر امام اور بہتر کارکن سے محروم ہوجائے گی۔ ذہین اقوام کی اقدار، اُن کے تاریخی ورثوں، اُن کے آثار قدیمہ ، اُن کی اپنی زبان اور اپنا کلچر اُن سے دور کرو۔ پاکستانی زیادہ تر مسلمان لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ قرآن و سنت کی شکل میں آفاقی رہنمائی موجود ہے لیکن اُن کی ان عظیم تعلیمات کو پرانی کہانیوں سے بدل گیا ہے۔
اس قوم کی قوتوں سے مزید انسان دوست کام لینے کے لیے ان کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے، جو واقعی رہنما ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ اقتدار اس لیے مانگتے ہیں کہ قومی خزانے سے بوریاں بھر بھر کر چرائیں جائے۔ تادیب کرنے والے اداروں کو کمزور اور بے اثر کیا جائے۔ اس قوم کی ذہنی یکسوئی اور قوت کار کے اعلیٰ معیار کے لیے ان کی تعلیم و تربیت، صحت اور دوسری سہولیات کی آسانی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کو ہر قسم بد امنی سے محفوظ کیا جائے۔ اس کی عزت نفس (اس کو ہمارے یہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں) کا خیال رکھا جائے۔ اگر ان لوگوں کو ذہنی آسودگی اور معاشی و معاشرتی بہتری دی گئی، تو یہ دنیا کی امن و خوشحالی کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں