حسن چٹانکالم

این اے تھری پر اک نظر

ملک میں اچانک پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال نے عوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ پشاور میں ہارون بلور کی خودکش دھماکے میں شہادت، بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے قافلے پر بم دھماکا اور بلوچستان میں نواب سیراج رئیسانی سمیت ایک سو بیس افراد کی شہادت نے اگر ایک طرف ملک کے سیکورٹی اداروں کی بے بسی کا پردہ چاک کر دیا ہے، تو دوسری طرف عوام کو بھی خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ان واقعات کے بعد عوام میں الیکشن کے حوالہ سے پایا جانے والا جوش و خروش بھی دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح سوات میں بھی پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں کی انتخابی مہم پر کافی اثر پڑا ہے۔ لوگ جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اگر عام الفاظ میں کہا جائے، تو 2008ء اور 2013ء کے انتخابات کی طرح خوف کی فضا قائم کی جاچکی ہے۔ اس فضا کو قائم کرنے میں پولیس اور ’’دیگر ادارے‘‘ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالاں کہ سوات کے’’امن‘‘ کا ہم دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے، مگر یہ سب کچھ عام لوگوں کے لیے ’’سفید جھوٹ‘‘ ہے۔ اب جب کہ الیکشن میں صرف دس دن باقی رہ گئے ہیں، تو سوات پولیس کی جانب سے امیدواروں کو خطوط ارسال کیے جا رہے ہیں جن میں ان کو ہدایت دی گئی ہے کہ اپنے پروگراموں کو خفیہ رکھیں، آنے جانے والے راستوں، گاڑی اور وقت کو تبدیل کرتے رہیں، رات کے پروگراموں سے گریز کریں، اپنے حجرہ میں آنے والے لوگوں کی تلاشی یقینی بنائیں۔ آسان الفاظ میں ایسا کہا جا سکتا ہے کہ آپ اپنی مہم نہ چلائیں۔
قارئین، اس صورت میں سیاسی جماعتوں کے امیدوار کس طرح انتخابی مہم چلائیں گے؟ یہ الگ بات ہے، مگر سوات کے عوام کو ضرور اس بات پر متفق ہونا چاہیے کہ چھپی قوتوں اور دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے ہر حال میں ووٹ پول کرنے کے لیے نکلنا ہے۔ جب تک ہم اپنے دلوں میں پائے جانے والے خوف کو ختم نہیں کریں گے، یہ صورتحال اسی طرح چلتی رہے گی۔ سوات کا اصل چہرہ دنیا کو کھانے کے لیے ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہے۔
اب جب کہ انتخابات قریب ہیں اور مسائل میں گھرے سوات پر ایک بار پھر دعوؤں اور وعدوں کی بہار آچکی ہے، جگہ جگہ جلسے جلوس منعقد ہو رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں، پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، سوات کے لاکھوں عوام کے لیے یہ عرصہ ایک حسین سپنے کی طرح ہوتا ہے جو الیکشن کے بعد پورا نہیں ہوپاتا۔ سوات کے لاکھوں عوام پچھلے پندرہ سالوں کے دوران میں بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ ایم ایم اے کے دور میں سوات کے عوام کی جو بدقسمتی شروع ہوئی تھی، اس سے تاحال چھٹکارا نہیں پایا جاسکا۔ زلزلوں، طالبائزیشن اور آخر میں سیلاب کے مارے ہوئے سوات کے عوام یقیناًداد کے مستحق ہیں۔ ان پندرہ سالوں میں بہت کچھ کھونے کے باوجود بہتر مستقبل کی امید میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
اب ملک کے دیگر حصوں کی طرح سوات میں بھی آنے والے انتخابات کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ملک بھر میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد سوات میں ایک قومی اور ایک صوبائی نشست کا اضافہ ہوا ہے۔ بابوزئی اور تحصیل بریکوٹ پر مشتمل نیا حلقہ ’’این اے تھری‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس حلقہ میں ووٹروں کی تعداد چار لاکھ گیارہ ہزار چوبیس ہے جس میں ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ ووٹ خواتین کا ہے۔ مجموعی طور پر خواتین اور مردوں کے لیے 675 ’’پولنگ بوتھ‘‘ قائم کیے جائیں گے۔ اس حلقہ سے مجموعی طور پر 8 اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی سے شہزادہ میانگل شہریار امیر زیب، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کے مشترکہ امیدوار شہباز شریف، پی ٹی آئی سے سلیم الرحمان، اے این پی سے عبدالکریم خان، جے یو آئی نظریاتی سے شکیل احمد جب کہ مولانا حجت اللہ، آفتاب شاہد اور علی خان آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
سوات کے تما م حلقوں میں این اے تھری انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اس حلقہ میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی ’’انٹری‘‘ نے سوات کی مقامی سیاست کو گرما دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انجینئر امیر مقام جن کو سوات میں بجلی ٹرانس فارمر اور پلاسٹک پائپ کی سیاست کا بانی کہا جاتا ہے، اس حلقہ سے شہباز شریف کو ہر حال میں جتوانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے موصوف کی جانب سے ٹرانس فارمروں اور گیس پائپوں کی بے دریغ تقسیم جاری ہے جب کہ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے صفحات چلانے والوں کی بھی جیبیں گرم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم اس حلقہ میں پی پی پی کے شہزادہ شہریار امیر زیب کی پوزیشن کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔ جس طرح ایم ایم اے کے امیدوار مولانا حجت اللہ کو شہباز شریف کے لیے قربانی کا بکرا بنایا گیا، ٹھیک اسی طرح شہریار امیرزیب کو بھی دستبردار کرانے کی اطلاعات ہیں۔ لاہور کے ایک چوہدری نے میانگل امیر زیب شہریار کو شہباز شریف کا پیغام پہنچایا تھا کہ آپ شہباز شریف کے مقابلہ میں دستبردار ہو جائیں اور شہباز شریف جیتنے کے بعد یہ سیٹ آپ کے لیے چھوڑ دیں گے۔ تاہم میانگل شہریار امیر زیب نے صاف انکار کرتے ہوئے مقابلہ کو ترجیح دی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار کہہ رہے کہ اس حلقہ میں میانگل امیرزیب شہریار کی پوزیشن کافی مستحکم ہے۔ ایک طرف تو ان کے پاس ذاتی ووٹ بینک کے ساتھ پارٹی کا ووٹ بھی موجود ہے اور دوسری طرف غیر مقامی امیدوار پی ٹی آئی کے سلیم الرحمان اور شہباز شریف کے اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی شہریار امیر زیب کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول اگر لاہورکے شہباز شریف کی بجائے مسلم لیگ (ن) اس حلقہ سے مقامی شخص کو میدان میں اتارتی، تو یقیناًاس حلقہ میں زبردست مقابلہ دیکھنے کو ملتا۔
اس طرح پی ٹی آئی نے بھی اس حلقہ میں انتہائی کمزور امیدوار کو میدان میں اتارا ہے جس پر پارٹی کے اہم عہدیدار اور کارکن ناراض ہیں اور انہوں نے الیکشن مہم سے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ پارٹی میں یہ بات عام ہے کہ ’’این اے تھری‘‘ کے امیدوار سلیم الرحمان کا تعلق ’’خوازہ خیلہ این اے فور‘‘ سے ہے۔ وہ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ’’این اے تیس‘‘ سے ممبر قومی اسمبلی تھے۔ اس پر طرّہ یہ کہ موصوف پانچ سال اپنے حلقہ سے غائب رہے، جب کہ کسی قسم کی کارکردگی نہیں دکھائی، کارکنوں کو بھی ناراض رکھا جس کی وجہ سے اَپر سوات میں پارٹی کے گراف پر بُرا اثر پڑا، مگر تمام حقائق معلوم ہونے کے باوجود پارٹی قیادت نے غلط فیصلہ کرکے مخالفین کو مضبوط کیا۔ اگر پی ٹی آئی اس حلقہ سے سہیل سلطان ایڈووکیٹ یا انجینئر عمر فاروق کو میدان میں اتارتی، تو ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ تھے۔
اس حوالہ سے کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس حلقہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچانے کے لیے تحریک انصاف اور پاکستان مسلم کے لیگ کی مقامی قیادت کا گٹھ جوڑ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں کمزور امیدوار کو اتارنے کا فیصلہ ہوا۔ موجودہ امیدوار کی شکل میں اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس طرح اس حلقہ سے مولانا حجت اللہ ایم ایم اے کے امیدوار تھے، مگر ایم ایم اے اور پاکستان مسلم لیگ کے گٹھ جوڑ نے مولانا صاحب کو قربانی کا بکرا بنا دیا اور ان سے ٹکٹ واپس لیاگیا جس پر مولانا صاحب دل برداشتہ ہوئے اور اب آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کو ترجیح دی۔ قوی امکان ہے کہ دینی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہو کرمولانا کے ساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو فائدہ پہنچائے گا۔
اس تمام تر صورتحال میں اے این پی کے عبدالکریم خان کی پوزیشن کچھ یوں ہے کہ وہ اپنے علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ موصوف تحصیل کونسل کا الیکشن بھی جیت چکے ہیں۔ تاہم حلقہ ’’این اے تھری‘‘ میں اے این پی کی پوزیشن کمزور ہے۔ مینگورہ کا اہم خاندان جو کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے، پارٹی قیاد ت سے ٹکٹ کے معاملے پر ناراض ہے اور انتخابی مہم سے خود کو الگ رکھے ہوئے ہے، جس کے براہِ راست اثرات موجودہ امیدوار پر پڑ رہے ہیں۔
قارئین، حلقہ ’’این اے تھری‘‘ کون جیتے گا؟ اس کا پتا 25 جولائی کو لگ جائے گا، تاہم پچھلے تین انتخابات کے دوران میں اچانک اڑنے والی ’’ہوائیں‘‘ اس مرتبہ نظر نہیں آرہیں، جس کی وجہ سے انتخابات میں سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں