روح الامین نایابکالم

ایک اور شہادت

ایک اور شہادت، ایک اور قربانی جو پچھلی شہادتوں اور قربانیوں کا تسلسل ہے، یہ اُن لوگوں کی قربانی ہے جو سر ہتھیلی پر رکھ گھومتے ہیں، جو اپنی سوچ، نظریے کے لیے سروں پر کفن باندھ کر نکلے ہیں، جو امن و محبت کے گلشن کو ہمیشہ اپنے خون سے لالہ زار کرتے چلے آئے ہیں، جو مرمٹنے کے لیے ہر آن تیار رہتے ہیں لیکن جھکتے اور بکتے نہیں، جو ظلم، دہشت اور جہالت کی سیاہ راتوں کو ہمیشہ اپنے خون سے چراغوں کو روشن رکھتے ہیں۔
ایسے ہی ایک موقع پر وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ستونِ دار پہ رکھتے رہو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ظلم کی سیاہ رات چلے
اس سے پہلے اسی شہید کے نڈر، بہادر باپ بشیر بلور نے اسی پشاور کی مٹی کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا اور اُسی سرخ جھنڈے کے سرخ لہو کے وارث نے آج امن و محبت کی راہ میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔
ایک جواں، خوبصورت، ولولوں اور جذبوں کا امین، اپنی ماں کی آنکھوں کا نور، بہنوں کے دل کا سرور، اپنے خاندان، اپنے چمن اور آنگن کا وہ خوشنما گلاب جس کی مہک سے سارا لالہ زار مہکتا رہا، اپنے پیچھے شہادت کی خوشبو چھوڑ کر سرخ کفن لپیٹ کر ہمیں آہوں، سسکیوں اور صدموں میں چھوڑ کر چلتا بنا۔ آخر انسان روئے تو کتنا روئے، چیخے تو کتنا چیخے، کتنے آنسو بہائے، درد، غم اور دکھوں کو سمیٹے۔ ہم صرف ہارون بلور کو نہیں، ان تمام شہیدوں کو رو رہے ہیں اور خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں جو اس راہِ حق میں اپنے سروں سے گزر گئے ہیں۔
یہ تو وہی راستہ ہے، وہی گزرگاہ ہے جس کے حوالے سے باچا خان نے برسوں پہلے کہا تھا کہ ’’میں اُس راستے کا مسافر ہوں جو کانٹوں سے اَٹا پڑا ہے۔‘‘ ہاں، وہی راستہ جو بابڑہ کے بے گناہ مظلوم عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کے خون سے گزرتا ہے۔ وہی خون، وہی لہو جو باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خانصاب کے بدن پر خنجر کے پے درپے ظالمانہ اور سنگدلانہ واروں سے ٹپ ٹپ کرکے گرا تھا۔
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
کیا کیا جائے اور کیا کہا جائے؟ ان عجیب سرپھروں کے نصیب میں ازل سے جیلیں، زندان، ہتھکڑیاں، صدمے، سنگینیں اور لہو بھری داستانیں لکھی ہیں۔ اوپر سے تہمتیں اور الزامات الگ، جو زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔کیا عجیب انصاف ہے کہ چمن کو خون سے سیراب کوئی اور کرے اور بہار آنے کے بعد دعوے دار کوئی اور بنے۔اس حوالے سے ساحرؔ لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا
چمن کو اس لیے مالی نے خون سے سینچا تھا
کہ اُس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
امن کے جھوٹے دعوے دار کتنی ڈھٹائی سے اور بے شرمی سے جھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو دہشت گردوں کے خیر خواہ چلے آئے ہیں۔ اُن میں اچھے اور برے کی تمیز کر رہے ہیں۔ اُن کے لیے دفتر کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اب حال ہی میں اپنے دورِ حکومت میں ستاون کروڑ کا ’’بھتا‘‘ بھی انہیں پیش کردیا، یہ کس لیے؟ اس لیے کہ ان متوالوں اور شہیدوں کے وارثوں، پروانوں اور اس خطے میں امن و محبت کے پھول کھلانے والوں کو انتخابات سے روکا جائے۔ دہشت پھیلا کر، خون کی ہولی کھیل کر ان کے قدم روک لیے جائیں۔ انہیں گھروں تک محصور کیا جائے اور ڈھٹائی اور بے شرمی سے انتخابی جیت کا ہار صرف اور صرف ان کے گلے کی زینت بنے۔ یہ ان کی بھول ہے۔ اس وقت تاریخ کا جبر ہے اور اس جبر پر ہم متوالوں کا صبر ہے۔ لیکن تاریخ بہت سفاک ہے۔ وہ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ تاریخ کے صفحات اے این پی کے پروانوں، متوالوں اور شہیدوں کے خون سے رنگین ہوں گے۔ ان کے جھوٹ اور ہٹ دھرمی پر لعنت اور ہزار لعنت پڑے گی۔
یہ حقیقت ہے اور تاریخ سچائی ہے جس کو چھپانا مشکل اور جھٹلانا ناممکن ہے۔
پختونخوا کے باشندو! کیا اب بھی کوئی ابہام باقی ہے کہ اس خطے کے امن کے لیے قربانیاں کس نے دیں؟ لہو کے نذرانے کس نے دیے؟ یہ جنگ کوئی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ببانگ دُہل اے این پی کے کارکنان نے لڑی۔ یہ 2008ء سے 2013ء تک ان کی حکومتی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری اور فرض انہوں نے پوری ایمان داری اور قربانی سے نبھایا اور سوات کی مٹی پر اپنے خون سے امن کے پھول کھلائے۔ خون کے نذرانوں میں بلا شبہ بشیر بلور شہید سے لے کر راشد افتخار اور ڈاکٹر شمشیر علی جیسے اتلان بے گناہوں کے نذرانے شامل ہیں۔
اب تو دوست اور دشمن کی پہچان کریں، خاص کر سوات کے غیور باشندو، اب تو سمجھو، اب تو ہوش کے ناخن لو۔۔۔ کہ کون آپ کو امن اور محبت کے لیے اپنے سروں سے گزر رہے ہیں۔ آخر اے این پی والوں سے یہ دشمنی کون پال رہا ہے؟ یہ برسوں پرانی دشمنی کون جاری رکھے ہوئے ہے اور کیوں؟ کیا یہ اے این پی والوں کی کوئی ذاتی دشمنی ہے؟ کوئی جائیداد یا زمین پر دشمنی ہے؟ یہ تو پختونوں کی بقا اور پہچان کی جنگ ہے۔ اس خطے پر امن کی جنگ ہے۔ اس سرزمین پر دہشت پھیلانے کے خلاف جنگ ہے۔ علم کی روشنی پھیلانے، قلم کو عزت و احترام دینے جمہوریت کو دوام دینے، روداری، مروت اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے اور پوری پختون قوم میں اتفاق و اتحاد کے جذبوں اور ولولوں کو جوان اور زندہ رکھنے کی جنگ ہے۔
لہٰذا اس جنگ میں شیروں اور بلّوں کا کوئی کام نہیں۔ اس کے لیے لالٹین کی وہ روشنی چاہیے جو اے این پی کے ہزاروں کارکنان نے اپنے خون سے جلائی ہے۔ اٹھیں، قدم بڑھائیں اور اپنے ووٹوں سے اس کو مزید جلا بخشیں۔ یہ ہم سب پر شہدا کے لہو کا قرض ہے۔
پچیس جولائی کو یہ قرض ادا کیجئے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں