فضل رازق شہابکالم

ایک محترم استاد کو خراجِ عقیدت

یہ غالباً 1952ء کی بات ہے۔ مَیں زندگی کے نویں سال میں جماعت پنجم کو پروموٹ کر دیا گیا۔ یہ سب میرے اولین اُستاد ’’فہم گل صاحب‘‘ کی ذاتی توجہ سے ممکن ہوسکا تھا۔ میں اُن کے بارے میں پہلے کئی دفعہ لکھ چکا ہوں، لیکن آج میں ایک دوسرے محترم صاحب علم کے تعلق کچھ بیان کرنا پسند کروں گا۔
سیدوبابا کے روضے کی مشرقی جانب کچھ کمرے گودام کے طور پر بنائے گئے تھے۔ ان کی چھت کے لیول پر ایک مکان کا دروازہ تھا۔ اس کے رہنے والے مرد حضرات اس کو اپنے صحن کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسی چھت پر ایک صاحب اکثر فالتو وقت میں ایک چارپائی پر اکثر نیم دراز حالت میں گاؤ تکیے کے سہارے نظر آتے تھے۔ اکثر مطالعہ میں مصروف نظر آتے تھے۔ صحت مند جسم کے مالک تھے۔ شیو کرتے تھے۔ بعد میں شاید داڑھی رکھی ہوگی۔ کیوں کہ کئی سال اُن سے ملے بغیر گزر گئے۔
ان سی پہلی گفتگو پانچویں کلاس میں داخلہ لینے پر ہوئی۔ سکول سٹاف میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے بعد اُن کا رعب چلتا تھا۔ اس لیے بات چیت کا حوصلہ نہ ہوسکا۔ اب روزانہ واسطہ پڑا، تو خوف کچھ کم ہوتا گیا اور احترام اور محبت بڑھنے لگا۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ وہ اکیلا اُستاد ہمیں کتنے مضامین پڑھاتے تھے: اُردو، حساب، الجبرا جیومیٹری اور فارسی۔
اتنے ’’ڈائیورسیفائڈ‘‘ مضامین پڑھانا کسی اوسط درجے کے اُستاد کی بس کی بات نہیں تھی۔ جی لگا کر پڑھاتے تھے اور سختی سے پوچھتے تھے۔ معمولی غلطی پر اتنے ناراض ہوتے تھے کہ بس! غصہ چڑھتا، تو یہ نہ دیکھتے کہ ’’مولا بخش‘‘ مضروب کے کس حصے پر پڑتا ہے۔ سزا دیتے، تو سب کے ساتھ یکساں پیش آتے۔ کسی امیر زادے، افسر زادے یا رشتہ دار کا لحاظ نہ کرتے تھے۔ اُن کے ایک خواہر زادے فضل ہادی کو ایک دن غلط جواب دینے پر اتنا مارا کہ پوری کلاس منت سماجت کرنے لگی، تو چھوڑ دیا مگر میں حلفیہ کہتا ہوں کہ مجھے پورے دو سال پڑھاتے گزرے، کبھی مجھ پر زبانی بھی غصہ نہیں ہوئے۔ شاید مار کے خوف سے ایسا ممکن ہوا۔ انہوں نے مجھے تمام مضامین میں کلاس میں ہمیشہ ٹاپ پوزیشن تک پہنچایا۔
ایک دن صبح آئے، تو جغرافیہ کے سبق سے طرفین کے بارے میں اور اس کے معلوم کرنے کے اصول کے متعلق سوال کیا۔ وہ ہمیں ایک روز پہلے بتاچکے تھے کہ مشرق کی طرف منھ کرکے کھڑے ہوجاؤ، تو بائیں ہاتھ شمال اور دائیں ہاتھ جنوب ہوگا۔ اسی طرح رُخ بدلتے اور طرفین بتانے پڑتے۔ سب لڑکے غلط جواب دیتے گئے۔ آخر میں مجھ سے پوچھا کہ ’’چلو چھوٹے، تم بتاؤ!‘‘ میں کلاس میں سب سے کم عمر تھا۔ میں نے فٹافٹ بتا دیا، تو ساری کلاس کو دو دو ڈنڈے مارے اور میری ڈیوٹی لگا دی کہ ان نالائقوں کو جغرافیہ پڑھا دو۔ اتنے خشک مزاج بھی نہ تھے کہ ہر وقت شاگردوں پر چڑھ دوڑیں۔ ایک دن ہماری فارسی کی کلاس ہائی سکول شگئی کے باہر سڑک کی دوسری جانب ایک چبوترہ نما مسجد پر لگی تھی۔ قریب ہی سوات کے آبِ حیات جیسے صاف ستھرے پانی کا ’’ولہ‘‘ (نہر) بہہ رہا تھا، جو پینے کے حوالہ سے اعلیٰ قسم کا پانی تھا، اور وضو کے لیے بھی۔ وہ ہمیں فارسی پڑھاتے رہے۔ اتنے میں ایک لڑکے کی زور دار آواز کے ساتھ ہوا نکلی۔ پوری کلاس اتنے زور سے ہنسنے لگی کہ روکنا مشکل ہوگیا۔ موصوف سنجیدہ صورت بنائے بیٹھے رہے۔ پھر حکم دیا ’’خاموش‘‘ لڑکوں کی قہقہوں کو ایک دم بریک لگ گئی۔ پھر ہلکے سے تبسم کے ساتھ فرمایا: ’’اپنے کھائے ہوئے کی ہوا نکالی۔ تم لوگوں کی تو نہیں کھائی۔‘‘ پھر اس لڑکے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’چھوٹے خان! تم چاہو تو چھٹی کرلو۔ اور فارسی چھوڑنی ہے، تو بھی تیری مرضی۔‘‘ لڑکے کی جان میں جان آئی۔ وہ گھر چلا گیا اور اگلے دن عربی آپشنل میں داخلہ لے لیا۔
جی لگا کر پڑھاتے اور ٹھیک جواب کی توقع رکھتے۔ ایسے فرض شناس اُستاد ہم نے صرف ریاستی دور میں دیکھے۔ بعد میں تو آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ یہ تھی مختصر سی کہانی۔ ہمارے محترم اُستاد صاحب جناب محمود کی۔ اللہ نے ان کو نیک اور نہایت قابل اولاد سے نوازا ہے۔ ان کے دو بیٹوں سے تو بہت تعلق رہا۔ ایک جناب مغفور جان صاحب تھے جن کو سب ’’طوطا‘‘ کہہ کر پکارتے اور دوسرے سید غنی تھے، جو میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ مغفور جان جہانزیب کالج میں طالب علمی کے دور میں کھیلوں کی جان تھے۔ فٹ بال کے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے۔ پھر حضور ولی عہد صاحب کے دفتر میں ملازم ہوئے۔ ادغام کے بعد ضلعی انتظامیہ میں ملازمت کی اور تحصیلدار کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوگئے۔
اللہ نے اُن کو بھی نہایت قابل اور نیک سیرت اولاد سے نوازا۔ بڑے بیٹے حبیب احمد جان اس وقت اسسٹنٹ کمشنر ریونیو ہیں۔ دوسرے بیٹے شفیق احمد جان ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر ہیں۔ تیسرے بیٹے سجاد احمد جان ہائی وے ڈویژن سوات میں ایگزیکٹیو انجینئر ہیں۔ مطلب یہ کہ ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔‘‘
یہ سب جناب محمود اُستاد صاحب کی دیانت دارانہ قومی خدمت کا پھل ہے جس سے اُن کی تیسری نسل مستفید ہو رہی ہے۔ اللہ تباک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ خاندان اسی طرح پلے پھولے اور شادو آباد رہے، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں