کالمکامریڈ امجد علی سحابؔ

نامعلوم افراد سے نامعلوم چوروں تک کا کامیاب سفر

قارئینِ کرام! سرِ دست یہ بکواس پڑھیں، جو ایک خبر کی شکل میں علاقائی اخباروں کی زینت بنی ہے: ’’اہلِ روڑینگار و گوالیرئی نامعلوم چوروں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، گوالیرئی پولیس چوکی کے سامنے دھرنا، کسی قسم کا علانیہ و غیر علانیہ کرفیو نہیں مانتے، روڈ ہر قسم ٹریفک کے لیے بند، تفصیلات کے مطابق روڑینگار اور گوالیرئی کے درجنوں لوگ نامعلوم چوروں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے مظاہرین نے کہا کہ پولیس ہمیں کہتی ہے کہ رات دس بجے کے بعد کوئی گھروں سے نہ نکلے، مگر رات دس بجے کے بعد گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے ہیں اور گھروں میں پتھرپھینکے جاتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ مظاہرین نے کہا کہ ہمیں نامعلوم چوروں پر فائرنگ نہ کرنے اور انہیں زندہ پکڑنے کا کہا جاتا ہے۔ مظاہرین نے کہا کہ ہم کسی قسم کے علانیہ و غیر علانیہ کرفیو کو نہیں مانتے۔ اس موقع پر مظاہرین نے پولیس، انتظامیہ اور سیکورٹی نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نعرہ بازی کی اور گوالیرئی بازار کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔‘‘
چلیے، اب ایک سیدھے سادے شریف انسان کی طرح محولہ بالا بکواس کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بے تکی سی کہانی سنیے اور خدا کا واسطہ ہے کہ اس کہانی کی کڑیاں اُوپر رقم شدہ بکواس یا آج کل کے حالات کے ساتھ مت جوڑئیے۔ اور اگر آپ لوگوں میں سے کسی کو ایسا کرنے کی خواہش ہو، تو بسم اللہ! مگر بعد میں ہمیں دوش مت دیجیے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ بہت زمانہ پہلے دو جڑواں گاوؤں میں لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ باقی ماندہ علاقہ کے لوگ ان کی خوشحالی اور پُرامن ماحول کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ دونوں گاوؤں کو کسی کی نظر لگ گئی اور پورے علاقہ میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ کچھ نامعلوم افراد منظم ٹولی کی شکل میں شام کے سائے گہرے ہوتے ہی لوگوں کے گھروں پر دستک دیتے ہیں، گھروں میں پتھر پھینکتے ہیں، گلی کوچوں میں ٹولی کی شکل میں بھاگتے پھرتے ہیں، یہ ہی نہیں بلکہ اک آدھ گھر کی دیوار پھلانگنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ خبر کا پھیلنا تھا کہ دونوں گاوؤں میں سرِ شام ہو کا عالم چھا جاتا اور گلی کوچوں میں اُلو بولتا سنائی دیتا۔ جب وقت کے ساتھ ساتھ نامعلوم چوروں نے گاؤں والوں کا ناک میں دم کر دیا، تو گاؤں کے بڑے بوڑھے سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ گاؤں کا پُرامن ماحول واپس لوٹانے کی غرض سے کچھ چوکیداروں کو مناسب رقم کے عوض رکھ لیا جائے۔ نتیجتاً دونوں گاوؤں میں دس دس چوکیداروں کو رات کے وقت پہرہ دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ فیصلہ ایک طرح سے گاؤں والوں کے لیے نیک شگون ثابت ہوا، جیسے ہی چوکیداروں نے چارج سنبھال لیا، تو ایک ہفتہ کے اندر اندر چوروں کی شکایت ختم ہوئی اور گاؤں والوں نے ایک بار پھر سکھ کا سانس لیا۔ یوں ایک مہینا گزر گیا، دو مہینے گزر گئے، یہاں تک کہ پورا ایک سال گزر گیا، مگر نامعلوم چور واپس نہیں آئے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے جڑواں گاوؤں کے بڑے بوڑھوں کو خیال آیا کہ چور تو ویسے بھی واپس آنے سے رہے، کیوں نہ چوکیداروں کی تعداد میں تھوڑی سی کمی لائی جائے؟ اس طرح گاؤں والوں کا مالی بوجھ بھی کچھ ہلکا ہو جائے گا اور علاقہ میں دونوں گاوؤں کے امن کے بارے میں بھی ایک بار پھر شہرہ ہوجائے گا۔ نتیجتاً چوکیداروں کی تعداد آدھی یعنی پانچ پانچ کر دی گئی۔ اس طرح مزید دو تین مہینے پُرامن طریقے سے گزر گئے اور چوروں کا کچھ پتا نہ چلا۔ چوتھے مہینے کے پہلے ہفتے بڑے بوڑھے یوں ہی وقت گزاری کی خاطر دھوپ سینک رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا: ’’ یار، اب تو چوروں کا نام و نشاں تک نہیں۔ کیوں نہ چوکیداروں کی تعداد میں مزید کمی لائی جائے، اس طرح ہمارا بوجھ اور بھی ہلکا ہوجائے گا؟‘‘ دیگر بڑے یہ سنتے ہی خاموشی سے سوچنے لگے۔ یہ بات اُڑتے اُڑتے دونوں گاوؤں کے چوکیداروں تک آپہنچی۔ انہیں بھی ایک طرح سے اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی۔ ٹھیک اُسی رات دونوں گاوؤں کی سرحد پر آدھی رات کو چوکیداروں کی ایک بیٹھک ہوئی جس میں گرما گرم بحث ہوئی اور طے پایا گیا کہ کیوں نہ آدھی رات کو دروازوں پر دستک اور گھروں کے اندر پتھر پھینکنے کا سلسلہ ایک دوسرے کے تعاون سے دوبارہ شروع کیا جائے؟ یوں گاؤں والے ہمارے پیٹ پر لات مارنے سے رہ جائیں گے۔ بیٹھک میں اس بات پر سب چوکیداروں کا اتفاق ہوا اور دوسری رات باہمی تعاون سے دونوں گاوؤں کے نہ صرف دروازے کھٹکھٹائے گئے بلکہ سنگ باری کا عمل بھی بخوبی انجام پایا۔ چار و ناچار ایک بار پھر بڑے بوڑھے سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور طے پایا گیا کہ چوکیداروں کو رخصت کرنا ایک طرح سے گاؤں کے پُرامن ماحول کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے چوکیداروں کو رات کے وقت پہرہ دیتے رہنا چاہیے۔ اور اگر ان کی تعداد کم محسوس ہوئی، تو امنِ عامہ کے پیش نظر مزید چوکیداروں کو مناسب رقم کے عوض رکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
قارئین کرام، انگریزی کی ایک کہاوت اور آخر میں مرزا غالبؔ کے ایک عدد شعر کے ساتھ آج کی نشست برخاست کرنا چاہوں گا، کہاوت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ’’کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، لوگوں کو کچھ دیر کے لیے بھی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن انہیں ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ہاں، جاتے جاتے تہہِ دل سے اہلِ سوات کو ’’نامعلوم افراد‘‘ سے ’’نامعلوم چوروں‘‘ تک کے کامیاب سفر پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
چُپ رہیں اور خوش رہیں!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں