روح الامین نایابکالم

ایک زبردست علمی نشست

23ستمبر بروز اتوار خپل کور ماڈل سکول میں ایک بھر پور علمی نشست منعقد ہوئی۔ اس علمی نشست کے انعقاد کا سہرا محترم فضل خالق کے سر جاتا ہے۔ جس میں محترم اُستاد، ناشر، مصنف، شاعر فضل ربی راہی صاحب، روزنامہ آزادی کے ادارتی صفحے کے روح رواں جناب امجد علی سحابؔ کا بھی برابر کا حصہ ہے۔
فضل خالق مشہور انگریزی روزنامے ’’ڈان‘‘ کے خصوصی نمائندہ ہیں۔ سیر و سیاحت کے شوقین، ساتھ سوات کے نئے نظاروں، خوبصورت مقامات اور آثار قدیمہ کے دریافت کے حوالے سے اب ایک مشہور اور اہم شخصیت بن چکے ہیں۔
سوات کی قدیم تاریخ کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ حال ہی میں فضل خالق صاحب کی نئی تخلیص ایک نئے اور خوبصورت یا تصویری کتاب کی شکل میں ’’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔ جس میں قدیم اور جدید سوات کے حسین اور تاریخی امتزاج کا ذکر نہایت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔ یہ معلوماتی کتاب سوات کے مشہور پبلشرز اینڈ بک سیلرز شعیب سنز میں مناسب قیمت پر دستیاب ہے۔
ہاں تو ذکر ہورہا ہے اُس علمی نشست کا،جس کے مہمان خصوصی سلامپور کے مشہور علمی شخصیت مولوی نعمت اللہ صاحب تھے۔ مولوی صاحب کا تفصیلی تعارف فضل ربی راہی صاحب نے کرایا جو کہ راہی صاحب کے پرانے شناسا تھے۔ نعمت اللہ صاحب کو اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی فلسفے، تصوف پر کافی عبور حاصل ہے۔ چناں چہ انہوں نے تصوف کا ذکر کرتے ہوئے وحدت الوجو اور وحدت الشہود کے معنی، پس منظر پر روشنی ڈالی۔
تصوف کے حوالے سے کافی بحث مباحثہ ہوا۔ سوالات و جوابات ہوئے۔ اور ہم جیسے طالب علموں اور شاگردوں کے علم و معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ دراصل پشتون سماج میں ایسے علمی بحث مباحثہ کی بہت ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہم میں ہر ایک اپنی معلومات کی حد تک محدود ہے۔ اور پھر اپنے نظریوں میں اعتقاد کی حد تک سخت اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں۔ ہم میں یہ سوچ سرایت کرچکی ہے کہ جو میں سوچتا ہوں اور کہتا ہوں، وہ آخری ہے اور صحیح ہے۔
اُس میں کچھ کہنے اور سننے کی گنجائش نہیں۔ اس احساس نے ہمیں اگر ایک جانب انتہا پسند بنادیا ہے تو دوسری جانب سماج کے دوسرے علوم اور نظریات سے الگ تھلگ کردیا ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی دوسرے کے منھ سے اپنے خیالات اور نظریات پر کچھ تحفظات سنتے ہیں، تو فوراً آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
اس لیے آج ہمارے معاشرہ سے رواداری اور برداشت کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔ ایسے میں اگر ایسے علمی فورم کو ترویج دی جائے تو علمی معلومات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو سننے، برداشت کرنے اور قبول کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔ تبادلہ خیالات سے ایک دوسرے کو سمجھنے پرکھنے، کے جذبات پیدا ہوجائیں گے۔ اور یہ تاثر پھیل جائے گا کہ دنیا کے ہر مسئلے پر بحث ہوسکتی ہے۔
اس خوبصورت علمی محفل میں سب حضرات نے بھر پور حصہ لیا۔ اور سب نے ایسی علمی محفلیں منعقد کرنے پر اتفاق کیا کہ یہ وقت کا تقاضا ہے اور سماج کو آگے لے جانے کی ضرورت بھی۔ مولوی نعمت اللہ صاحب کے سیر حاصل گفتگو کے بعد سوالات و جوابات ہوئے۔ لیکن علمی پیاس بھجنے نہ پائی۔ مولوی صاحب کی ضروری مصروفیات کی وجہ سے اُنہیں عزت و احترام سے رخصت کیا گیا۔
بعد ازاں فضل مولا ذاہد کی تحریک پر سوات کے حوالے سے صفائی، شجر کاری کے مہم پر بحث مباحثہ ہوا۔ خود اس میں عملی طور پر حصہ لینے پر زور دیا گیا۔ امجد علی سحاب اور فضل خالق صاحب کی کوششوں کو سراہا گیا۔
خپل کور ماڈل سکول کے ڈائریکٹر محترم محمد علی صاحب کی تجاویز پر بات چیت کی گئی اور اُس کی عملی پیشکش کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ متفقہ فیصلہ کیا گیا جو کوئی بھی مینگورہ، سوات کی صفائی یا شجر کاری کے لیے آگے بڑھے گا اُس کا ساتھ بھر پور دیا جائے گا اور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ فلسفیانہ بحث میں محترم عثمان اولس یار کے ساتھ ساتھ فضل ربی راہی صاحب، فضل خالق صاحب، امجد علی سحاب، فضل مولا ذاہد صاحب اور دوسرے تمام شریک محفل نے حصہ لیا۔
بعد میں یہ خوبصورت محفل اس اُمید کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ ایسی محفلوں کے تسلسل کو بر قرار رکھا جائے گا اور علمی بحث و مباحثہ کو دوام بخشا جائے گا۔
راقم الحروف کو اس علمی محفل سے تسکین قلب حاصل ہوا اور یہ حوصلہ ملا کہ گویا چند ہی سہی لیکن ابھی ایسی شخصیات ہیں جو جہالت اور انہتا پسندی کے اندھیروں میں علم، برداشت اور رواداری کے چراغ روشن کرنے کے لیے بے قرار اور بے چین ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں