حضرت علیکالم

مینگورہ شہر پر چوہوں کی یلغار

قارئین، جسامت کے لحاظ سے چوہا چاہے جتنا بھی چھوٹا جانو رہو، یہ اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اکثر طبی اور سائنسی تجربات کے لیے چوہے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چوہے انسانوں کے لیے بیماریوں کا سبب بھی بنتے ہیں، جن میں طاعون کی طرح کئی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ چوہے کیوں اتنے خطرناک ہوتے ہیں؟ تو یہ گٹر اور نالیوں کے علاوہ ہر قسم کی گندگی میں رہتے ہیں، اس لیے اِن میں مختلف بیماریوں کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں خطرناک بیمار یوں میں سے ایک طاعون ہے، جس نے اب تک مختلف ادوار میں ہزاروں انسانوں کی جان لی ہے۔تحقیق کے مطابق ’’طاعون‘‘ چوہوں کے ذریعے پھیلتا ہے جو بعد میں وبا کی شکل اختیار کرلیتاہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت چوہوں کو مختلف طریقوں سے ختم کرنے کے لیے تقریباً 13 ملین ڈالرز سالانہ خرچ کرتی ہے۔ 1898ء میں ہندوستان میں چوہوں کے ذریعے طاعون بیماری پھیلی، جس سے لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس وقت ہندوستان کے مشہور شہر ممبئی میں ہر سال بیس ہزار لوگ چوہوں کے کاٹنے سے ہونے والے بخار سے متاثر ہوتے ہیں۔ ممبئی شہر میں حکومت نے باقاعدہ طور پر چوہوں کے خاتمے کے لیے فورس بنائی ہے، جو زہریلی ادویات کے استعمال کے ساتھ ساتھ رات کے وقت چوہے مارنے پر بھی معمور ہوتی ہے۔ اس طرح برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 1665ء میں لندن میں طاعون سے ایک لاکھ کے قریب لوگ مرگئے تھے۔
کہتے ہیں کہ چوہے کا ایک جوڑا ایک سال میں سو سے دو سو چوہے پیدا کرتا ہے۔ دیگر جانوروں کی بہ نسبت چوہے اپنے بچوں کا خاص خیال رکھتے ہیں جس سے اس کی نسل کی بہتر افزائش ہوتی ہے۔ عام طور پر چوہے گھروں اور دکانوں میں گھس کرانسانی غذائیں شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ اکثر ان غذاؤں کے قریب رہائش اختیار کرلیتے ہیں، جس سے انسانی خوراکی اشیا میں مختلف بیماریوں کے جراثیم پھیلتے ہیں۔
اب اس تمام تر صورتحال میں اگر ہم اپنی حکومت کی بات کریں، تو محکمۂ صحت نے ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماریوں پر تو کئی ریسرچ کیے ہیں لیکن چوہوں کی بڑھتی ہوئی نسل اور جسامت پر یا تو محکمۂ صحت نے کوئی ریسرچ کی ہی نہیں یا حکومتی سطح پر عوام میں شعور اجاگر کرنے کی کمی ہے ۔
قارئین، آج کل مینگورہ شہر میں چوہوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کا اندا زہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ مینگورہ شہر کی سڑکوں پر صبح کے وقت بڑی تعداد میں بلی نما بڑی جسامت والے چوہے مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں۔ یہ چوہے گاڑیوں کے ٹائروں سے کچلے ہوئے ہوتے ہیں۔ صبح ہوتے ہی سڑکوں پر گاڑیوں کا رش شروع ہوجاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روڈ پر پڑے ہوئے یہ چوہے گاڑیوں کے نیچے آکر کچلے جاتے ہیں۔ ڈھیر سارے لوگوں نے انہیں دیکھا بھی ہوگا۔ یہ مردار چوہے وقت گزرنے کے ساتھ خاک میں مل جاتے ہیں اور پھر یہی خاک کسی نہ کسی طرح تیز رفتار گاڑیوں کے چلنے سے گرد و غبار میں تبدیل ہوجاتی ہے، جو بازار میں پڑی ہوئی اشیائے خور و نوش میں شامل ہوتی ہے اور انسانی جسم میں منتقل ہوتی ہے۔ مذکورہ جراثیم زدہ گرد و غبارسانس کے ذریعے بھی منتقل ہوسکتی ہے اوربہت سی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ چوہوں کے خاتمے کے لیے حکمت عملی تیار کرے اور عوام میں چوہوں کے خاتمے کے حوالہ سے شعور اجاگر کرے، تاکہ بلی نماچوہوں کی بڑ ھتی ہوئی تعداد اور اس کے انسانوں پر پڑنے والے مضر صحت اثرات کو روکا جاسکے۔
اس سلسلہ میں انتظامیہ کو سب سے پہلے صفائی پر مامور اداروں کو اپنا کام بروقت نمٹانے پر زور دینا چاہیے۔ اس کے بعد کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے دُکان داروں کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں کہ وہ خوراکی اشیا کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھا کریں، تاکہ وہ چوہوں اور دیگر جراثیم سے بچ سکیں۔ اس سلسلے میں خصوصی طور پر بیکریوں اور ریسٹورنٹوں کی کڑی نگرانی ہونی چاہیے، تب کہیں جا کر اہلِ سوات مختلف بیماریوں سے بچ سکیں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں