احسان علی خانکالم

کیا سیدو شریف ائیر پورٹ کی بندش بھی ’’تبدیلی‘‘ ہے؟

سوات میں روز بہ روز سیاحت بحال ہورہی ہے۔ گذشتہ عید الفطر میں سیاحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اب عموماً یہی ہوتا ہے۔ اکثر مواقع پر آپ کو سوات کے تھری سٹار ہوٹل سے لے کر اوسط درجے کے ہوٹل میں ایک کمرہ تک نہیں ملے گا۔
قارئین، سوات کے ائیرپورٹ کو کشیدہ حالات کے دوران میں بند کر دیا گیا تھا۔ پھر یہ بندش ایسی طول پکڑ گئی کہ اب تک سیدو شریف ائیرپورٹ میں جہاز کیا، پرندہ بھی نہیں اُڑتا۔ یوں تو اس ائیر پورٹ کو دوبارہ آپریشنل کرنے کے حوالہ سے نواز شریف صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں ایک بڑے جلسے میں وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔ اس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے بھی ائیر پورٹ کھولنے کا عندیا دیا تھا، مگر اس کے بعد تبدیلی آگئی اور کچھ اس ڈھنگ سے آئی کہ سیدو شریف ائیرپورٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کی نوید سنائی گئی۔
اگر آپ پی آئی اے کے خسارے کی آڑ میں یہ ائیرپورٹ بند کرنا چاہتے ہیں، تو پھر آپ پی آئی اے ہی کو بند کرلیں۔ کیوں کہ خسارہ بہرحال ہو رہا ہے۔ مسافروں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پی آئی اے کی دیگر فلائٹس کا خسارہ برداشت کیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں تو جنت نظیر سوات کو خصوصی طور پر توجہ دینی چاہیے۔ کوئی اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتا ہے کہ روئے زمین پر جنت کے ٹکڑے سوات میں ائیرپورٹ خسارہ میں جائے گا۔ سوات میں ائیر پورٹ کی موجودگی سے آس پاس کے اضلاع بونیر، شانگلہ، اپر دیر، لوئیر دیر، باجوڑ، چکدرہ اور ملاکنڈ تک لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔ ان اضلاع کی آبادی لاکھوں میں ہے۔ لاکھوں کی آبادی کے لیے دستیاب ائیرپورٹ کیسے خسارے کا باعث ہوگا؟ میری تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے!
دوسری طرف سوات کی دم توڑتی سیاحت کو آسرا دینے میں یہ ائیر پورٹ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہزاروں سیاح جو سڑک کے ذریعے نہیں آسکتے، ائیر پورٹ کی سہولیت میسر ہونے سے انہیں بڑی آسانی کے ساتھ یہاں آنے پر راغب کیا جاسکتا ہے۔ یہاں موجود ائیر پورٹ آپریشنل ہونے سے پوری دنیا میں سوات کا بہتر امیج جائے گا۔ ائیر پورٹ کی بندش چاہے کسی بھی وجہ سے ہو، تاثر یہی پھیلا ہے کہ سوات میں تاحال امن بحال نہیں۔ کیوں کہ اگر بات امن کی ہے، تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جہاں سول و فوجی ہیلی کاپٹر پرواز کرسکتے ہیں، تونجی فلائٹ کیوں نہیں کرسکتی؟ سوات کو پوری دنیا میں پہچان دلانے کی خاطر اس ائیرپورٹ کو جلد از جلد بحال کرنا چاہیے۔
سوات میں ’’طالبانائزیشن‘‘ کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا جتنا نقصان ہوا ہے اور تاحال کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے، اس کے بعد یہاں کے ائیر پورٹ کو بند کرنے کا فیصلہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ ’’مرے پر سو درے‘‘ کے مصداق ہے۔ اس کے علاوہ اگر دوسری پارٹی برسر اقتدار ہوتی اور ایسا فیصلہ سامنے آتا، تو شاید اہلِ سوات کو اتنی حیرت نہ ہوتی۔ کیوں کہ اہلِ سوات اب ایسی محرومیوں کے عادی ہوچکے ہیں، لیکن ایک ایسی پارٹی جس کو گذشتہ فیصلہ کن انتخابات میں یہاں کے لوگوں نے اپنا پورا مینڈیٹ بخشا، حالیہ انتخابات میں دوبارہ تمام سیٹیں اس کی جھولی میں رکھ دیں، حالاں کہ اہلِ سوات ایسا کرتے نہیں، اس کے باوجود اگر ائیرپورٹ کے بند کرنے کی بات ہوتی ہو، تو ہم اسے اہلِ سوات کے مینڈیٹ کا مذاق اڑانا کہیں گے۔
یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ سوات سے وزیر اعلیٰ جیسے بڑے عہدیدار کو بھی خاطر میں نہ لایا گیا۔ اس سے تو تاثر ملتا ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب کی چولیں (خدا نخواستہ) کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔ خیر، اس کا پتا تو وقت گزرنے کے ساتھ ہی چلے گا لیکن صوبہ کے تیسرے بڑے ضلع کا پہلے سے موجود ائیرپورٹ بند کرنا سوات کے ’’خپل وزیر اعلیٰ‘‘ اور ان کی پارٹی کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ وزیرِ مواصلات مراد سعید صاحب بھی خیر سے سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ یہاں ائیر پورٹ کا بحال ہونا کتنا ضروری ہے؟
میری گزارش ہے کہ اہلِ سوات کو مزید احساسِ محرومی کا شکار نہ بنائیں۔ پہلے سے ہی سوات اپنی عظمت رفتہ کو ترس رہا ہے۔ ایسے میں آپ کے ایسے اقدامات اسے مزید پیچھے کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔سوات کو لوگوں نے آپ پر اعتماد کیا ہے۔ ایسے اقدامات سے آپ یہاں کے لوگوں کواپنے فیصلے پر پشیمان نہ کریں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں