فياض ظفرکالم

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے ساتھ ایک ملاقات

سوات سے پہلی بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اب سوات کے لوگوں نے خپل وزیر اعلیٰ (اپنے وزیر اعلیٰ) سے ڈھیر ساری توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ سوات کی 21 لاکھ آبادی کا خیال ہے کہ محمود خان سوات کی ترقی و خوشحالی کے لیے ٹھیک اُسی طرح کام کریں گے، جس طرح سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے نوشہرہ، امیر حیدر خان ہوتی نے مردان، اکرام خان درانی نے بنوں، آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے چارسدہ اور سردار مہتاب عباسی نے ایبٹ آباد کے لیے کیے ہیں۔
گذشتہ روز ’’سوات الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن‘‘ کی کابینہ نے ان سے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ملاقات کی جس میں میں ناچیز بھی شامل تھا۔ ملاقات میں وزیر اعلیٰ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوات میں پیدا ہوئے ہیں اور سوات میں ہی بڑا ہوکر سیاست کی ہے۔ اس لیے اُن کو سوات کے سب مسائل کا بخوبی علم ہے۔ انہوں نے سوات میں اپنی جانب سے کیے جانے والے بعض کاموں کا ذکر بھی کیا۔ ساتھ یہ خوشخبری بھی سنائی کہ سوات ایکسپریس وے جو ’’کرنل شیر خان انٹر چینج‘‘ سے چکدرہ تک بنائی جارہی ہے، اس کی اب مینگورہ تک توسیع کی جائے گی، جس کے لیے ’’فیز یبلٹی‘‘ تیار ہو چکی ہے۔
مینگورہ تک ایکسپریس وے کی توسیع سے ایک تو سوات اور شانگلہ کے عوام کو بہتر سفری سہولت ملے گی، لوگ کم وقت میں یہ باقی 36 کلومیٹر کا راستہ طے کر سکیں گے۔ دوسری بات اس سے سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔ ہر سال سوات میں آنے والے لاکھوں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو جائے گا۔ اگر وزیر اعلیٰ کے کہنے کے مطابق اس ایکسپریس وے کو مینگورہ تک واقعی توسیع دی گئی، تو پھر مینگورہ سے پشاور اور اسلام آباد کا سفر ڈھائی گھنٹے سے بھی کم ہو جائے گا۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ پٹرول اور ڈیزل کی بھی خاطر خواہ بچت ہوجایا کرے گی۔
وزیر اعلیٰ موصوف نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کبل اور چارباغ یا گلی باغ کے مقامات پر دریائے سوات کے اوپر دو بڑے پل تعمیر کیے جائیں گے، جس کی وجہ سے مینگورہ شہر اور دوسرے علاقوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہو جائے گا۔ خاص کر گلی باغ میں نئی بننے والی سوات یونیورسٹی کو مختلف راستوں سے کم وقت میں جانا آسان ہو جائے گا۔
اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ تاریخی جہانزیب کالج کی عمارت بھی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔ 2005ء میں آنے والے زلزلہ میں خراب ہونے والی سوات جیل کی تعمیر بھی دوبارہ کی جارہی ہے جس سے قیدیوں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے مزید آسانی پیدا ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2004ء میں ایم ایم اے کے دور میں اس وقت کے ایم پی اے محمد امین کے شروع کردہ سیدو شریف تدریسی ہسپتال کی عمارت تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ اس جدید ہسپتال میں اگلے دو تا تین ماہ میں کام کا آغاز کر دیا جائے گا، جس سے ملاکنڈ ڈویژن کے آٹھ اضلاع کے مریض مستفید ہوں گے۔
وزیراعلیٰ موصوف نے اپنی گفتگو کے دوران میں یہ بھی کہا کہ سوات کے مختلف علاقوں اور خاص کر مینگورہ میں مزید ڈگری کالج تعمیر کیے جائیں گے، جن ہائی سکولوں میں مزید کمروں کی تعمیر کی گنجائش ہوگی، ان میں تعمیراتی کام کرکے ان کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا جائے گا اور جن میں مزید کمروں کی تعمیر ممکن نہ ہو، وہاں طلبہ کے لیے کرایہ پر عمارتیں حاصل کی جائیں گی۔ تاکہ سوات کا کوئی طالب علم حصولِ علم سے محروم نہ رہ جائے۔
اس طرح سڑکوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چکدرہ سے مدین تک سڑک پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔ بحرین سے کالام تک کی سڑک بھی اگلے سال مکمل ہو جائے گی۔ ملم جبہ سڑک کی تعمیراتی کام بھی جاری ہے۔ کوکارئی روڈ کی تعمیر کے لئے فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں، جو جلد پاےۂ تکمیل تک پہنچ جائے گی۔سوات کے خوبصورت علاقہ گبین جبہ تک جانے اور وہاں کے قدرتی نظاروں سے محظوظ ہونے کے لیے بھی سڑک تعمیر کی جارہی ہے۔ سوات کے تمام سیاحتی مقامات تک سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ مینگورہ شہر میں ٹریفک جام کے مسئلہ کے حل کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے، جس میں تجاوزات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
مذکورہ ملاقات کے موقع پر انہوں نے سوات کے سینئر صحافیوں سے سوات کی ترقی و خوشحالی کے لیے تجاویز بھی لیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’خپل وزیر اعلیٰ‘‘ اپنی مدت کے دوران میں سوات کی ترقی و خوشحالی کے لیے کیا کرتے ہیں ؟ اگر انہوں نے اس منصب پر رہ کر سوات کی تعمیر ، ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ کیا اور اس ضلع کے یتیم و یسیر لوگوں کے لیے مسیحا ثابت ہوئے، تو اہلِ سوات جس طرح اپنے محسن ’’والئی سوات‘‘ کو آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں، ٹھیک اس طرح وزیر اعلیٰ موصوف کو بھی یاد کریں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں