فضل رازق شہابکالم

لاکھوں کا پلنگ

ایک پشتو ضرب المثل کا مفہوم ہے کہ ’’سچ کے آتے آتے جھوٹ کئی بستیاں برباد کرچکا ہوتا ہے۔‘‘
لوگ سنی سنائی باتوں پر نہ صرف یہ کہ یقین کرلیتے ہیں بلکہ خود سے اُن میں مزید اضافہ کرکے آگے بڑھاتے ہیں اور جب حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے، تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ٹھیک سال تو مجھے یاد نہیں کیوں کہ یہ تاریخ دانوں اور محققین کا منصب ہے۔ وزیر اعظم بھٹو کسی جلسے کے سلسلے میں سوات آنے والے تھے، اُن کی آمد سے چند دن پہلے ’’کبل گالف کورس‘‘ کے اندر واقع ’’فرنٹیر ہاؤس‘‘ کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ جناب بھٹو صاحب کے ذاتی استعمال کے لیے ایک پلنگ خصوصی آرڈر پر پشاور کے ایک مشہور کمیٹی سے تیار کر واکر لایا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو فرنٹیر ہاؤس میں جلسے سے پہلے اور بعد میں چند گھنٹے آرام کرنا تھا۔
حسبِ پروگرام بھٹو صاحب ’’گالف کورس‘‘ کے سبزہ زار میں ہیلی کاپٹر سے اُتر کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ وہاں سے نکل کر کار میں سوار ہوگئے اور جلسۂ عام سے خطاب کرنے کے لیے گراسی گراؤنڈ سیدوشریف کی طرف روانہ ہوئے۔ اُن دنوں ’’سیکورٹی‘‘ نام کی کوئی چیز ہم نے نہیں سنی تھی اور کوئی بھی لیڈر، چاہے بھٹو ہو یا ولی خان اور قیوم خان ہو، سب کھلے جلوسوں میں بغیر کسی خصوصی انتظامات کے سفر کرتے تھے، اُن کو اپنے ہی لوگوں سے کسی قسم کا خطرہ یا خوف محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ’’بلٹ پروف‘ کنٹینروں اور ’’بلٹ پروف روسٹرم‘‘ اور شیشہ کی ضرورت ہوتی تھی۔ بلکہ کھلے اسٹیج پر ہزاروں کے ہجوم میں گھرے اُن کی اپنی زبان میں اُن سے دل کی باتیں کہی جاتی تھیں۔
بھٹو صاحب نے حسب روایت تقریر کی اور جلسہ کے شرکا میں اُمید کے نئے جوت جگا کر واپس کبل چلے گئے اور وہاں چند گھڑی آرام کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس اسلام آباد چلے گئے۔ لیکن بھٹو کے لیے خریدے گئے پلنگ کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں تھا۔ لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے افسانے گڑنے لگے اور ہر ایک اُس پلنگ کی قیمت میں ایک ہندسہ بڑھا کر دوسرے کو یہ راز منتقل کرتا گیا، اور شام تک اُس کی قیمت تیرہ ہزار روپیہ سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی تھی۔ پھر چوں کہ یہ خرید ’’بی اینڈ آر‘‘ والوں کے ذریعے ہوئی تھی، تو ساتھ یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ محکمہ والوں نے اس ایک پلنگ کی خریداری میں کئی لاکھ خورد برد کی ہے۔ اس محکمے کا اگر کوئی کلاس فور ملازم بھی مینگورہ بازار میں کسی کنجڑے کی دکان سے سبزی خریدتا، تو وہ بھی اُس پلنگ کے بارے میں نہایت گھٹیا سوالات سننے پر مجبور ہوتا۔
حالاں کہ اُس بے چارے چپڑاسی کا ان چیزوں سے کسی قسم کا سرو کار نہ ہوتا تھا، پھر بھی یار لوگوں کا خیال تھا کہ اس چوتھے درجے کے ملازم کو بھی کچھ نہ کچھ اس لوٹ کے مال میں سے ملا ہوگا۔
اُسی شام کو ہمارے سرکل آفس کے ایک اسسٹنٹ صاحب مینگورہ کے ایک حجام کی دکان پر بال کٹوانے آئے تھے۔ حجام لوگ تو ویسے بھی باتونی ہوتے ہیں اور اکثر سکینڈلز نائی کی دکان ہی سے پھیلتے ہیں۔ حجام نے جب مذکورہ صاحب کے گلے میں کپڑا باندھا اور کنگھی قینچی اُٹھا کر کام کا آغاز کیا، تو چھوٹتے ہی پلنگ کا ذکر شروع کیا اور جو جو مبالغہ آمیز باتیں اس نے اُس ناد الوجود پلنگ کے بارے میں سنی تھیں، اُن میں اپنی طرف سے مرچ مصالحہ ڈال کر اسسٹنٹ صاحب کے گوش گزار کرنے لگا۔ اس کے بعد بڑے راز دارانہ انداز میں اُن سے پوچھا کہ اس مال غنیمت میں آپ کو کچھ ملا یا نہیں؟ اور یہ کہ آخر اس پلنگ میں کیا ایسی بات تھی، اس کے خریدنے کی اور ایسی عیاشی کی کیا ضرورت تھی؟
اس ساری داستان طرازی کے دوران میں اُس سرکاری ملازم کا بلڈ پریشر بڑھتا گیا۔ اس کا جی چاہا کہ اُٹھ کر اس باتونی حجام کو گلے سے پکڑ کر گرادے اور سامنے پڑے ہوئے استروں میں سب سے تیز استرے سے اُس کی منحوس زبان کاٹ لے لیکن یہ سب وہ صرف سوچ سکتا تھا، عملی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کیوں کہ اُس وقت وہ حجام کے رحم و کرم پر تھا۔ اس نے صرف دانت چبا کر اتنا کہا کہ وہ پلنگ وزیراعظم پاکستان کے لیے خریدا گیا تھا، مینگورہ کے حجام کے لیے نہیں۔
جب وہ نائی سے فارغ ہوا، تو نہایت دھیمے لہجے میں اس کو بتانے لگا کہ سنو! اس پلنگ کے بارے میں جو بھی تم نے سنا ہے، یہ سب بکواس ہے۔ اس کی قیمت لاکھوں میں نہیں، چند ہزار ہے اور یہ اس کی اصلی مارکیٹ ریٹ ہے۔ اگر ایک عام آدمی بھی یہ پلنگ اُس دکان سے خریدے، تو اُس کو بھی تیرہ یا چودہ ہزار میں ملے گا۔
قارئین، پتا نہیں لوگوں کو اس طرح کی بے سرو پا باتیں پھیلانے میں کیا ملتا ہے؟ یہ صرف ذہنی طور پر بیمار لوگ ہی ایسا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس بات کو پھیلانے سے پہلے حقیقت معلوم کرلیتے، تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوتا اور بعض متعلقہ افراد کو ذہنی کوفت نہ ملتی۔
اسی لیے تو کہتے ہیں ’’چہ رشتیا رازی نو دروغو بہ کلی وران کڑی وی۔‘‘

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں