ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

ایس پی داوڑ کی شہادت

وزیرِ مملکت کے بقول شہید ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے براستہ جہلم اور میانوالی ننگر ہار افغانستان لے جاکر شہید کیا گیا۔ اَٹھارہ دنوں کی حکومتی خاموشی بالآخر تُڑ ہی گئی۔ مقتول کی تصویر آنے کے بعد بھی حکومتی وزرا نے معاملے کو حساس نوعیت کا کہہ بحث کرنے سے انکار کر دیا۔ اتنا حساس کہ شائد اک چھوٹے سے کمنٹ اور مذمت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ یوں نادانستہ طور پر مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے میں کردار ادا کرگئے۔ شائد وزیرِ مملکت شہر یار آفریدی کو کسی حکومتی آفیسر نے کہا ہو کہ اس پر ’’فلاں وجوہات‘‘ کی وجہ سے کمنٹ نہیں کرنا۔ وزیرموصوف کو کیا پتا تھا کہ قبائلی عوام بالعموم اور تمام پختون بالخصوص اس واقعہ سے کتنے متاثر ہوں گے؟ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ خواہ اس کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہوتا، اس درد ناک اور المناک واقعے پر سب قوموں کے لوگ اسی طرح دلگیر ہوتے۔ شائد موصوف بھول گئے کہ مال و جان کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور کسی بھی پاکستانی شہری کے قتل پر سٹیٹ کو لازماً حرکت میں آنا ہوتا ہے۔ وزیر موصوف بھول گئے اور کہہ گئے کے شہید کو براستہ جہلم، میانوالی اور بنوں، ننگر ہار پہنچا دیا گیا۔ بعض تنقید نگاروں کی رائے کے مطابق اس کو پتا ہونا چاہیے کہ اس راستے پر خوست افغانستان کا علاقہ آتا ہے۔ ان کو یاد نہیں رہا کہ شہید ہونے والا کوئی عام فرد یا شہری نہیں بلکہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اسلام آباد تھا۔ اس کو یاد نہیں تھا کہ وہ پچھلے اٹھارہ دنوں سے غائب تھا اور معاملہ کافی سیریس شکل اختیار کرچکا تھا۔ موصوف سینٹ میں بریفنگ دیتے ہوئے گویا ہوا کہ سیف سٹی اسلام آباد میں اٹھارہ سو خفیہ کیمرے موجود ہیں اور ان کیمروں میں چھے سو خراب ہیں۔ یہ ہے ’’سیف سٹی‘‘ اور ان کے خفیہ کیمروں کی حالت۔ موصوف کو اَب پتا چلا کہ اس پروجیکٹ کے لیے عوامی خزانے کو چونا لگایا گیا ہے۔ اسی ’’سیف سٹی‘‘ میں اسی مہینے مولاناسمیع الحق کی شہادت کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر افتخار درانی نے بھی وائس آف امریکہ کو انٹریو دیتے ہوئے شگوفہ چھوڑا اور کہا کہ ’’موصوف پشاور میں ہے۔‘‘ بعد کی خبر آنے تک اس نے کہا کہ ’’مجھے کسی پولیس نے یہ غلط خبر اور سب کچھ کہا ہے۔‘‘ اندازہ لگائیں کہ کس طرح یہ صاحبان اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ جب مذکورہ حالات وزرا اور مشیروں سے کنٹرول نہیں ہوئے، تو وزیراعظم کو ٹویٹ کرنے کی مداخلت کرنا پڑی۔ افسوس کہ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ وزیراعظم کو بھی اس واقعہ کا علم اسی ہی دن ہوا ہے۔ بہرحال وزیر اعظم نے جے آئی ٹی بنانے کا عندیہ دیا اور شہر یار آفریدی کو تفتیشی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرکے ذمہ داری سونپی۔ اسے ہدایت کی گئی کہ جلد از جلد کمیٹی تفتیش مکمل کرکے رپورٹ وزیر اعظم کے آفس میں جمع کرے۔ حکومت نے پسماندگان کے لیے ڈیڑھ کروڑ کا امدادی پیکیج، بیوہ کے لیے پنشن اور ایک بچے کے لیے آئی ایس آئی میں نوکری کی سفارش کر دی ہے۔ اسے قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ دوسری بات ہے۔ جے آئی ٹی نے کام شروع کردیا ہے اور فون ٹریسنگ، اہل خانہ، دوست واحباب اور دیگر افراد تک تفتیش کا دائرہ بڑھایا جائے گا، یعنی دیدہ دانستہ اہل خانہ کو مزید پریشان کرنے کا پروگرام ہوچکا ہے۔
قارئین، طاہر داوڑ چوں کہ داوڑ پشتون قبیلہ سے تھے۔ اس لیے جب ننگرہار میں نعش کو عام عوام نے تحویل میں لیا۔ بعد میں ننگر ہار کے قبائلی جرگہ نے فیصلے میں قرار دیا کہ نعش کو حکومت پاکستان کی بجائے داوڑ قبیلے کے جرگہ کو حوالہ کیا جائے گا۔نعش حوالہ کرتے ہوئے بھی کافی بد مزگی اور بد نظمی دیکھنے میں آئی۔ حکومتی وزرا ان سب واقعات کو دیکھتے رہ گئے۔
قارئین، میرا ماننا ہے کہ ملکوں کے تعلقات سفارتی ذرائع سے بہتر ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں افغان حکومت کو حکومتِ پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے تھی۔ دونوں ممالک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا۔ اس موقع پر افغان حکومت نے بھی اپنا بغض نکال کر سرحد کے دونوں جانب پشتونوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے۔ آپ سب کو پتا ہوگا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد تجارت، بیماری اور اپنوں سے ملنے جلنے کے لیے بارڈر عبور کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر بیسیوں فوت شدہ افراد حکومتی سرکردگی میں حوالہ ہوتے رہتے ہیں۔ خدا نہ کرے ایسے حالات میں افغان حکومت کی حکومتِ پاکستان سے تعلقات میں کمی آئے یا دونوں ممالک کے تعلقات خرابی کی طرف جائیں۔ اب بھی وقت ہے دونوں حکومتوں کو اس واقعے پر اپنا واضح نکتۂ نظر ملکی قانون اور ریاستی ذمہ داری کے طور پر ادا کرنا چاہیے۔ دونوں طرف کی پشتون آبادی کو پیش نظر رکھ کر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت آپہنچا ہے۔ خدا کرے کہ صاف اور شفاف تحقیقات ہوں اور مجرمان کو معلوم کرکے ان کو کڑی سے کڑی سزائیں دلوائی جائیں۔ پورے پختونخوا وطن میں نیشنلسٹ ونگز کی طرف سے مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس لیے انصاف کے حصول کے لیے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور مہم جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ مقدمے میں مکمل تفتیش اور مجرمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اداروں اور دونوں حکومت کو وقت دینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے واقعات کی طرح اس واقعہ کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جائے، یا کمیشن کی رپورٹ کو ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ یاد رہے مذکورہ واقعے میں غیر ملکی ایجنسیوں کے کردار کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایف آئی آر درج کراتے ہوئے ایس پی طاہر داوڑ کے خاندان والوں نے طاہر داوڑ کی کسی فیملی یا دیگر قبیلے کے کسی شخص کے ساتھ دشمنی کو رد کردیا ہے اور نا معلوم افراد کے خلاف پرچہ کاٹ دیا ہے۔
دیگر دہشت گرد تنظیمیں ہوں یا تحریکِ طالبان، جس نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی ہو، کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ سرحد کے دونوں جانب اس واقعے پر ایک بین الاقوامی آزاد کمیشن اور یا جو دونوں ممالک صحیح سمجھیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے زیر سایہ آزاد کمیشن بنایا جائے جو دونوں ممالک میں اپنی تفتیش کو مکمل کرکے قتل کے ذمہ داروں کو حکومت کے حوالہ کرے۔ اس کمیشن کو ’’مینڈیٹ‘‘ دینا ان حکومتوں کی ذمہ داری ہوگی۔
اس سارے واقعے میں سب سے زیادہ پریشان کن امر جو اخبارات کی زینت بنا ہے اور جو ’’آئی سیس‘‘ (داعش) کے ذریعے آیا، یہ ہے کہ طاہر داوڑ کو مذکورہ تنظیم نے اغوا کرکے شہید کیا ہے۔ مذکورہ خبر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ’’آئی سیس‘‘ پاکستان میں موجود ہے اور وہ بلاخوف و خطر کارروائیاں بھی کر رہی ہے۔ اس لیے ریاستِ پاکستان کو اس واقعے کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ اور اس دہشت گرد تنظیم کو آڑے ہاتھوں لے کر اس کو پاکستان سے ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
ہمیں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے اور بارڈر پر بلا روک ٹوک دہشت گردوں کے آنے جانے وغیرہ کے الزام میں اقوام متحدہ نے گرے لسٹ میں ڈالا ہے۔آخری اور حتمی موقع مارچ دو ہزار انیس تک دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ریاستِ پاکستان واضح اقدامات کرے اور یہ ثابت کرے کہ اس نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں اور مالی سرپرستی نہیں دی۔ نیز پاک افغان بارڈر پر دہشت گردوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ورنہ پھر ہمیں بلیک لسٹ کیا جائے گا۔ اس طرح ہماری تمام تر امداد روکی جا سکتی ہے۔ پھر ہم پر نہ صرف اقتصادی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں بلکہ کئی دیگر خطرات بھی موجود ہیں۔
اس سے بھی خوف ناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہمارا نام جو پہلے ہی سے بدنام ہے، مزید بدنام ہوگا اور ہم سفارتی و اقتصادی طور پر تنہا رہ جائیں گے۔
قارئین، میرا ذاتی خیال ہے کہ طاہر داوڑ کی شہادت کو معمولی واقعہ نہ سمجھا جائے۔ ہماری ناکامی کی صورت میں خدانخواستہ ہمیں عالمی برادری کی طرف سے سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں