ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

وزیر اعظم عمران خان کا یو ٹرن (آخری حصہ)

میرے خیال کے مطابق تمام سیاسی پارٹیوں کے راہنما یہ سمجھتے ہوئے خود کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان کی سیاست کرپشن سے پاک ہے۔ البتہ ان کی سیاسی سوچ سے اختلاف ضرور رکھتے ہوں گے جو کہ ایک فطری امر ہے۔ عمران خان کے بعض فیصلوں کو ان کی ذاتی خواہش سمجھ کر سیاسی رنگ میں اچھالنا کون سی قسم کی سیاست ہے؟ ان کی سیاست کا موازنہ کسی اور سیاست دان کے ساتھ کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اس طرح عمران خان کی سیاست کا بھلا کسی کی سیاست سے کیا میچنگ ہوسکتی ہے؟ ان سوالات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تھوڑا پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں کا بھی جائزہ لیا جائے، جو شروعات نون لیگ اور پیپلز پارٹی والوں نے پاکستانی سیاست، ملکی قرضوں، افراتفری، مذہبی فرقہ واریت، مزدور تحریک کی ناپیدگی، زر مبادلہ کی کمی، قیمتوں کا اتار چھڑاؤ، افراطِ زر کی کمی اور اسٹیبلشمنٹ سے ایڈجسٹمنٹ کی مد وغیرہ میں کیا ہے، کیا ان کے کیے دھرے کا سارا ملبہ اور نزلہ عمران کی سیاست پر گرا یا جا سکتا ہے؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔
قارئین، آپ کو پتا ہے اور یہ درست ہے کہ عمران خان سیاست میں نئے کھلاڑی ہیں اور پہلی مرتبہ فیڈریشن میں اقتدار کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ایک یا دو صوبے کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی ٹیم بھی کمزور ہے، تاہم اس کے لیے وہ وقتاً فوقتاً کوششیں کرتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں۔ ان کی ٹیم کے نقائص، غلطیوں اور باتوں پر ان کو جواب دِہ ٹھہرانا انصاف نہیں۔ البتہ اپنے رفقا کے بیانات اور بے وقوفیوں کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، لیکن شائد ان کو چُپ کرانے میں اس کو ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ رہی بات دوسری سیاسی پارٹیوں کی، تو وہ تو آپ سب کو پتا ہے کہ یہی پاکستانی سیاسی پارٹیاں بلیک پروپیگنڈا سیاست کی ما ہر ہیں۔ کئی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے توسط سے حکومتیں بھی کرچکی ہیں۔ آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ کس طرح اور کون سی وجوہات ہیں کہ ان کی حکومتیں عوام یا دیگر قوتوں نے رد کی ہیں؟ میں مانتا ہوں ان مذکورہ سیاسی پارٹیوں کو آئندہ بھی اقتدار ملنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ان کے ساتھ جاری ہے بلکہ اس کو اور واضح کرتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے پہلے بھی مفاہمت کیا اور آئندہ بھی یہ چکر جاری رہے گا۔ یاد رہے ان مذکورہ سیاسی پارٹیوں نے حکومت کے لیے آپس میں میثاقِ جمہوریت بھی کیا۔ اس طرح آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے نمبر کا کھیل بھی اسی طرح جاری رہے گا۔ اب جب ان کے درمیان یہ ڈیل ہوچکی ہے، تو یہ لوگ کیوں کر چاہیں گے کہ یہ کسی تیسری اور چھوتی قوت کی بالا دستی کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ پارٹیاں تیسری سیاسی قوت کو بالکل بے بنیاد پروپیگنڈا کے زور پر دبانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے گا کہ عمرا ن خان اکیلے ان سے ملکی ترقی اور سیاسی جنگ کیسے کرے گا؟ اور کس طرح خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کو چلائے گا؟ کیسے فیڈریشن کو مضبوط کرے گا؟ شائد ان مقاصد کے حصول کے لیے ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی یا عمرو عیار کی زنبیل درکار ہوگی۔ باقی وہ ان حالات میں کام اور ترقی سے رہے۔ کوئی کیسے پاکستان کے ان لامتناہی مسائل کے ہوتے ہوئے انتہائی کم وسائل اور سیاسی بے چینی میں خیال رکھ سکتا ہے؟
تحریکِ انصاف کے پی، کو پچھلے دورِ حکومت میں پولیس، ہسپتال، پٹواری، کسی حد تک عدالت، جنگلات کی شجر کاری مہم اور سرکاری محکموں میں کسی حد تک کرپشن پر قابو،اقربا پروری پر بھی کسی حد تک قابو، اداروں میں میرٹ پر بھرتی،بجلی کی لوکل ایم ایچ پیز، لوکل باڈی الیکشن اور قانون میں کسی حد تک کامیابی، کئی صوبائی قوانین وغیرہ میں اگر پوری طرح صوبے کے مسائل حل کرنے میں کامیابی نہیں ملی، تو بھی کامیابی کی طرف ایک مشکل سفرمیں ایک فرلانگ سفر ضرور کیا ہے ۔ کسی کو اس میں بھی تامل نہ ہوگا کہ عمران خان کی شخصیت کرپشن سے پاک ہے اور لوگ ان پر جان نثار کرتے ہیں۔ اسی لیے ہی عوام کے توسط سے دوبارہ حکومت میں آئے ہیں۔
ان سب احوال کے باوجود میں اس نتیجے پر پہنچتا ہو ں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنا اور وہ بھی ’’اکیلے‘‘ یہ ان کے لیے بس کی بات نہیں۔ ایسا ہو نیں سکتا کہ وہ خود ہی سارے ارینجمنٹ کرسکیں۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ وہ حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیوں کو میثاقِ معیشت (جس کا اعادہ اور رائے عاصمہ شیرازی صاحبہ نے اپنے نئے آرٹیکل میں دیا ہے) کی طرف بلائے، ورنہ شائد کچھ ہی دنوں میں ان کی حکومت اپوزیشن کے دباو کی وجہ سے کمزور ہوجائے گی۔ لازمی طور پر اور بہ امر مجبوری ان کوقومی مفاد کے پیشِ نظر ان سیاسی کاریگروں سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ پارلیمنٹ کے تقدس کو بحال کرنا ہوگا۔ الزام در الزم سے توبہ کرنا ہوگا۔ یاد رہے ’’این آر او‘‘ حکومت کے بس کی بات نہیں۔ حزبِ اختلاف کے راہنماؤں پر جو بدعنوانیوں کے کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، ان کو عدالتوں کے صوابدید پر چھوڑنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں اور حکومت کے آتے ہی میں نے اپنے آرٹیکل ’’قومی حکومت اور تحریک انصاف‘‘ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ قومی حکو مت بنانے میں تحریک انصاف حکومت کو پہل کرنی چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ دیگر پارٹیوں کی سیاست میں تیس چالیس سال کے ٹھوس تجربات ہیں۔اداروں کے اندر ان کے سیاسی ورکرز بھرتی ہیں۔ بیوروکریسی پر تقریباًان کا مکمل قبضہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ الزامات د ر الزامات کی سیاست میں یہ ماہرین ہیں۔ اس حال میں عمران خان وفاق کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اگر دانستہ یا نادانستہ کسی بھی ملکی ترقی کے منصوبے میں غلطی کر جایں گے، تو یہ مذکورہ سیاسی شیر کئی ایک جگہوں سے ایسے تیر برسائیں گے کہ بندہ لامحالہ اس سوچ پر مائل ہونے لگتا ہے کہ ’’بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ! ‘‘
یہ بھی درست ہے کہ عمران خان ابھی پاؤر سٹرکچر میں پورے طور پر نہیں آئے۔ان سب کے باوجود ان مذکورہ سیاسی پارٹیوں کا یہی سلوک ہے اور سیاسی محاذ آرائی کے درمیان جب ان کو غلطی کرنے کاموقع ملے گا، تو کیا ہوگا؟ ذرا اس بات پر بھی سوچنا چاہیے۔ ان سیاسی پارٹیوں نے عمران خان کو کئی سیاسی نام عطیہ کرچکے ہیں۔مثلاً ’’الزام خان‘‘، ’’طالبان خان‘‘، ’’یو ٹرن خان۔‘‘ جانے اور کیا کیا نام ہیں اس حوالہ سے جو سامنے آئے ہیں!
پاکستان کا آئین، قانون کے تابع آپ کو آزادیِ اظہار رائے دیتا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں جو قومی مفاد یعنی میثاقِ معیشت اور قومی حکومت وغیرہ بنانے کا مشورہ دیں۔ عمران خان ایک آزادپولی ٹیکل شخصیت اور پارٹی کے بانی ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے حکومت میں آئے ہیں۔ البتہ ہم سب کا یہ حق بنتا ہے کہ ہم اس کے اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہیں، لیکن بصد احترام صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کرتاہوں کہ میں قومی مفاد میں امتیاز کا ہر گز قائل نہیں ہوں۔ اگر میں نے کبھی عمران خان کے برے فیصلوں پر لکھا، تو مجھے اس کے اچھے فیصلوں پر بھی لکھنا چاہیے ۔ اس طرح میرا دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی یہی اصول ہے۔ اس مد میں کسی کو کسی طرح بھی جانب داری کا مظاہرہ ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں کسی کی بھی برائی، کرپشن، چوری چکاری، رشوت، اقربا پروری وغیرہ کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔کسی کی اچھائی کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے بھی اپنے سینے اور ذہن کو وسعت دینا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس قلم اللہ تعالی کی ایک مقدس امانت ہے، جس کو صحیح مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ بعض دفعہ عمران خان کی سیاست، بصیرت اورفیصلہ سازی پر مجھے بھی غصہ آتا ہے اور میں اس کا اظہار بھی اپنے آپ پر فرض سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ سیاست ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری قوم کی اجتماعی حالت تبدیل ہوسکے، اگر اغراض ومقاصد حاصل نہیں ہوتے، تو اس طرح سیاسی جواب در جواب اور بلیم گیم سے مجھے دور رکھا جائے!
میں سمجھتا ہوں کہ حکومتی اکابرین و دیگر سیاسی پارٹیوں کے راہنما میری باتوں کا ہر گز بھی برا نہیں منا ئیں گے، بعض باتیں خاطر میں لاکر اس پر عمل پیرا ہوں گے اور قومی سطح پر میثاقِ معیشت کے لیے کوششیں تیز کریں گے ۔
وما علینا الاالبلاغ!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں