کالمملک گوہر اقبال خان رما خیل

چاند کے چہرے پر داغ رہ گیا

چاند کے چہرے پر داغ رہ گیا
ملک گوہر اقبال خان رما خیل
چودہویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
شکیل بدایونیؔ نے اس گیت کے بول لکھے تھے، شاید وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے اور اس کشمکش میں تھے کہ ’’اپنے محبوب کو کس چیز سے تشبیہ دوں؟ اگر چاند کہوں، تو چاند صبح کو بے نور ہو جاتا ہے، اگر آفتاب کہوں، تو وہ رات کو غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ بلآخر وہ ایک سیاسی نعرہ لگا کر یعنی خدا کی قسم کا سہارا لے کر بس صرف لاجواب ہو پر ہی اکتفا کر بیٹھتا ہے۔ اس الجھن میں اکثر ہمارے شاعر و ادیب مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور اپنے چاہنے والے کو مختلف چیزوں کے ساتھ تشبیہ دیتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ چاند ہو کبھی کہتے کہ کلی ہو اور کبھی کہتے ہیں کہ پری ہو۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ ایک خیالی دنیا میں جیتے ہیں، جس میں ان کی زبان سے کبھی حقیقت نہیں نکلتی۔ ورنہ آپ کبھی تحقیق کر لیں کہ یہ پری ہے کیا؟ پری نام کی کوئی مخلوق آپ کو اس دنیا میں نہیں ملے گی۔ یہ صرف تصوراتی اور افسانوی نام ہے۔ اور کلی پھول تو بن جاتی ہے لیکن اکثر مرجھا جاتی ہے۔ اور چاند تو محض ایک گولہ ہے جس کی اپنی روشنی تک نہیں اور اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔
میرے نزدیک اس قسم کے نام دینے میں دو طرح کی خامیاں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس چیز کی اصلیت نظر انداز ہوجاتی ہے اور دوسری یہ کہ انسان جیسی مخلوق کو چاند جیسے گولے یا اس پری (جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو) سے تشبیہ دینا انسانیت کی تذلیل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے دانشوروں نے کبھی ایسی اصطلاحات پر جرح نہیں کی بلکہ وہ بھی انہی الفاظ کو ترویج دیتے رہے، جن کی وجہ سے عوام میں کسی چیز کی حقیقت جاننے کی دلچسپی باقی نہیں رہی، اور یوں اس چیز کی اصلیت نظر انداز ہونے لگی۔ بس شاعر اور افسانہ نگار بیان کرتے رہتے ہیں8 اور بے چارے عوام سر دھنتے رہتے ہیں۔ ایسی تربیت سے قومیں ترقی کی طرف نہیں بلکہ زوال کی طرف سفر کرتی ہیں، چیزوں کی اصلیت بھول جاتی ہیں اور تخیلات کے گرویدہ بن جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایسی قوموں کا اجتہاد سراسر غلط اور ان کا باہمی اختلاف مؤجبِ فساد ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چاند کو لیجیے۔ چاند کے بارے میں ہمارے ملک میں بھی اختلاف ہوتا ہے اور چاند کے بارے میں مغربی محققین کا بھی اختلاف رہا ہے۔ ہمارا اختلاف یہ ہوتا ہے کہ ایک جگہ پر چاند نظر آجاتاہے، تو دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا ملک کے کچھ حصے میں لوگ عید مناتے ہیں اور اکثر حصہ میں ابھی رمضان ہوتا ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں اختلاف کیا تھا، وہ یہ کہ ہم چاند پر پہنچے ہیں کہ نہیں؟ چناں چہ جب 1969ء میں امریکی ادارے ناسا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہم ’’اپولو الیون‘‘ مشن کے ذریعے چاند پر پہنچ گئے ہیں اور چاند کی براہِ راست ویڈیو اور تصاویر جاری کیے گئے، تو اس وقت بہت سے امریکی اور برطانوی محققین نے ان سے شدید اختلاف کیا اور ان کی اس وڈیو اور تصویروں پر کافی جرح کی۔ ’’مون لینڈنگ کانسپیرنسی تھیوری‘‘ کے ابتدائی پروموٹرز میں سے ایک فاکس ٹیلیویژن نیٹ ورک تھا، جس نے سال 2001ء میں ڈاکومنٹری فلم بنائی، جسے کانسپیرنسی تھیوری کا نام دیا کہ کیا ہم نے چاند پر لینڈنگ کی تھی؟ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ ناسا نے خلائی ریس جیتنے کے لیے 1969ء میں چاند پر جعلی لینڈنگ کی۔ اس فلم میں یہ ثبوت پیش کیے گئے کہ چاند کی ان تصاویر میں آسمان پر کوئی ستارے دکھائے نہیں دیتے اور چاند پر نصب کیے ہوئے امریکی پرچم چاند پر ہوا کے نہ ہونے کے باوجود لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس قسم کی بے شمار چیزوں پر بحث کی گئی، جس کا ناسا والوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرا مقصد یہ بتانا نہیں کہ ’’اپولو الیون‘‘ نے چاند پر لینڈنگ کی تھی کہ نہیں؟ میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس چاند کے بارے میں اہلِ مغرب کے اختلاف کا معیار کیا ہے اور ہمارے اختلاف کا معیار کیا ہے؟ یعنی ہمارے شاعر و ادیب سورج اور چاند کے بارے میں کیا نظریہ پھیلا رہے ہیں اور ہمارے اہلِ علم کس معیار کا اختلاف کر رہے ہیں؟ حالاں کہ قرآنِ حکیم دنیا کی وہ پہلی کتاب ہے جس نے سورج اور چاند کی اصلی حیثیت کو واضح کیا اور چودہ سو سال پہلے عرب کے صحرا نشینوں کو یہ تعلیم دی ’’ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا‘‘ کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے سورج کو اجالا بنایا اور چاند کوچمک دی۔ یعنی سورج کو روشنی دینے والا ضیا قرار دیا اور چاند کو نور یا منعکس شدہ روشنی دینے والا قرار دیا کہ چاند سورج سے روشنی لیتا اور زمین پر منعکس کرتاہے۔
کیا یہ سائنسی نکتہ دنیا کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں کوئی پیش کرسکتا ہے کہ قرآن سے پہلے کسی نے یہ بتایا ہو۔
قدیم تہذیبوں میں تو یہ عقیدہ عام تھا کہ چاند سے اپنی روشنی پھوٹتی ہے۔ ہندو مذہب میں تو چاند کی عبادت تک کی جاتی تھی۔ شاید اسی شرک کی وجہ سے رسولؐ نے جس طرح کعبے کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو اپنے ہاتھوں سے توڑ دیا تھا اسی طرح چاند کے بھی دو ٹکڑے کیے تھے۔ شاید اسی وجہ سے چاند کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے داغ رہ گئے۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے روایات بخاری و مسلم میں موجود ہے ۔ ’’شق القمر‘‘ کے اس منظر کو ہندوستانی بادشاہ مالیبار کے مہاراجہ ’’چکرورتی فارمس‘‘ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، جس کا مشہور ومستند کتاب تاریخ فرشتہ میں ذکر موجود ہے ۔یہی واقعہ اس بادشاہ کے مسلمان بننے کا سبب بنا۔
مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے دو ٹکڑے کیے اور قرآن حکیم نے سب سے پہلے چاند کے کھودنے کا اعلان کیا: ’’اقتربت الساعتہ وانشق القمر‘‘ یعنی قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا۔ شق کے ایک معنی کھودنے کے ہیں اور مسلمان جو قرآن کے ماننے والے ہے اور اولین مخاطب بھی ہیں، ان کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ وہ تو صرف نظر آنے یا نہ آنے کے اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے برخلاف مغربی اہلِ علم چاند کو کھود کر اس کی مٹی زمین پر لے آئے۔ ان کا قرآنِ حکیم پر ایمان بھی نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ حکیم پر صرف ایمان لانا اور پھر اس میں غور و تدبر نہ کرنا علمی ترقی کے لیے کافی نہیں۔
قارئین، قرآنِ حکیم صرف چومنے اور بلند جگہوں پر رکھنے کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ آپ کی زندگی میں ایک بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ بہ شرط یہ کہ آپ اس میں غور و فکر کریں۔
قرآن میں ہوغوطہ زن اے مرد مسلماں!
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں