صلاح الدین ایوبیکالم

اک دلچسپ واقعہ (آخری حصہ)

دوسری بات ڈاکٹر حمیداللہ نے یہ کہی کہ میرے علم کے مطابق آپ میڈیکل سائنس کے ماہر ہیں۔ انسانوں کا علاج کرتے ہیں۔ آپ جانوروں کے ماہر تو نہیں ہیں، تو آپ کو پتا نہیں کہ دنیا میں کتنے قسم کے جانور پائے جاتے ہیں؟ پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ علم حیوانات میں کیا کیا شعبے اور کو ن کون سی ذیلی شاخیں ہیں اور ان میں کیا کیا چیزیں پڑھائی جاتی ہیں؟ لیکن اگر علم حیوانات میں ’’مکھیات‘‘ کا کوئی شعبہ ہے، تو اس شعبہ کے ماہر نہیں ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں؟ کیا آپ نے کوئی سروے کیا ہے کہ دنیا میں کس موسم میں کس قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں؟ جب تک آپ عرب میں ہر موسم میں پائی جانے والی مکھیوں کا تجربہ کرکے اور ان کے ایک ایک جز کا معائنہ کرکے لیبارٹری میں چالیس پچاس سال لگاکر نہ بتائیں کہ ان میں کسی مکھی کے پر میں کسی بھی قسم کی شفا نہیں ہے، اس وقت تک آپ یہ مفروضہ کیسے قائم کرسکتے ہیں کہ مکھی کے پر میں بیماری یا شفا نہیں ہوتی؟
ڈاکٹر مورس بکائی نے اس سے بھی اتفاق کیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ تحقیق کرکے یہ ثابت بھی کردیں کہ مکھی کے پر میں شفا نہیں ہوتی، تو یہ کیسے پتا چلے گا کہ چودہ سو سال پہلے ایسی مکھیاں نہیں ہوتی تھیں؟ ہوسکتا ہے ہوتی ہوں، ممکن ہے ان کی نسل ختم ہوگئی ہو۔ جانوروں کی نسلیں تو آتی ہیں اور ختم بھی ہوجاتی ہیں۔ روز کا تجربہ ہے کہ جانوروں کی ایک نسل آئی اور بعد میں وہ ختم ہوگئی۔ تاریخ میں ذکر ملتا ہے اور خود سائنس دان بتاتے ہیں کہ فلاں جانور اس شکل کا اور فلاں اُس شکل کا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر مورس نے اس کو بھی تسلیم کیا۔
پھر ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضورؐ نے اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا، حالاں کہ شریعت نے پیشاب کو ناپاک کہا ہے۔ بالکل صحیح ہے۔ یہ حیوانی بدن کا مسترد کردہ مواد ہے۔ یہ بھی درست ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں بطور ایک عام آدمی (layman) کے یہ سمجھتا ہوں کہ بعض بیماریوں کا علاج تیزاب سے بھی ہوتا ہے۔ دواؤں میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتے؟ جانوروں کے پیشاب میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتا؟ ہوسکتا ہے کہ بعض علاج جو آج کل خالص اور آپ کے بقول پاک ایسڈ سے ہوتا ہے، تو اگر عرب میں اس کا رواج ہو کہ کسی نیچرل طریقے سے لیا ہوا کوئی ایسا لیکویڈ جس میں تیزاب کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو، وہ بطورِ علاج کے استعمال ہوتا ہو، تو اس میں کون سی بات بعید از امکان اور غیر سائنسی ہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج سے کچھ سال قبل میں نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ ایک انگریز سیاح تھا جو پورے جزیرۂ عرب کی سیاحت کرکے گیا تھا۔ اس کا نام تھا ڈاؤٹی۔ 1924-25-26ء میں اس نے پورے عرب کا دورہ کیا تھا اور دو کتابیں لکھی تھیں، جو بہت زبردست کتابیں ہیں اور جزیرۂ عرب کے جغرافیہ پر بہترین سمجھی جاتی ہیں۔ ایک کا نام “Arabia Deserta” اور دوسرے کا نام “Arabia Petra” ہے، یعنی عرب کا صحرائی حصہ اور جزیرہ عرب کا پہاڑی حصہ۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے اتنی کثرت سے یہاں سفر کیاہے۔ یہ اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ جزیرۂ عرب کے سفر کے دوران میں ایک موقع پر میں بیمار پڑگیا۔ پیٹ پھول گیا، رنگ زرد پڑگیا اور مجھے زرد بخار کی طرح کی ایک بیماری ہوگئی، جس کا میں نے دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا لیکن کچھ اِفاقہ نہیں ہوا۔ آخرِکار جرمنی میں کسی بڑے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ جہاں تمہیں یہ بیماری لگی ہے، وہاں جاؤ۔ ممکن ہے وہاں کوئی مقامی طریقۂ علاج ہو یا کوئی عوامی انداز کا کوئی دیسی علاج ہو۔ کہتے ہیں کہ جب میں واپس آیا، تو جس بدو کو میں نے خادم کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ بیماری آپ کو کب سے ہے؟ میں نے بتایا کہ کئی مہینے ہوگئے ہیں اور میں بہت پریشان ہوں۔ اس نے کہا کہ ابھی میرے ساتھ چلیے۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک ریگستان میں اونٹوں کے باڑے میں لے جاکر کہا کہ آپ کچھ دن یہاں رہیں اور یہاں اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے علاوہ کچھ نہ پئیں۔ چناں چہ ایک ہفتہ تک یہ علاج کرنے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہوگیا۔ مجھے بہت حیرت ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے ڈاکٹر مورس بکائی سے کہا یہ دیکھئے کہ 1925-26ء میں یہ ایک مغربی مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ سابق طریقۂ علاج ہو۔ مورس بکائی نے اپنے دونوں اعتراضات واپس لے لیے اور اس مقالہ کو انہوں نے اپنے دونوں اعتراضات کے بغیر ہی شائع کردیا۔
قارئین! قرآن کریم یا حدیث کی کتابیں سائنس کی کتابیں نہیں ہیں۔ حدیث یا قرآن کو طب یا سائنس کی کتابیں قرار دینا ان کا درجہ گھٹانے کے مترادف ہے۔ قرآن و حدیث کا درجہ ان تجرباتی انسانی علوم سے بہت اونچا ہے۔ رسولؐ اللہ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ انسان کے دنیاوی و اخروی دونوں جہانوں کی فلاح کے لیے ہیں۔ تاہم اگر دیکھا جائے، تو آج سائنس کو جس قدر زندگی کا ایک اہم جزو مانا جاتا ہے، اس میں اسلام کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اسلام نے ہر دور میں اپنی حقانیت ظاہر کر دی ہے۔
نیز اسلام نے تحقیق پر کوئی روک نہیں لگائی بلکہ زمین و آسمان کے موجودات پر غور کرنے اور اس کے ذریعے خالقِ حقیقی تک پہنچنے کی تاکید بھی کی ہے۔
سو تحقیق کی آنکھ کو سونے مت دیجیے۔ اسے کھلا رکھیے اور قدرت کے ہر جلو میں اس کے کرشماتی حسن کا نظارا ڈھونڈیے!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں