حضرت علیکالم

ہے کوئی پوچھنے والا……….!!!

کرپشن، رشوت اور غبن کا دوسرا نام ہے۔ اپنے عہد ے کا غلط استعمال اوربھروسا توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔ ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لیے کسی مقدس نام کواستعمال کرنا بھی بد عنوانی ہے۔
کرپشن، اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن ہی کا ہوتا ہے۔ کرپشن سرطان کی طرح زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ جس طرح سرطان وجود میں قوت مدافعت کو کھاکر ختم کر دیتا ہے، ٹھیک اسی طرح معاشرے کی اخلاقی صحت کے محافظ ادارے بھی کرپشن کا شکار ہو کر رہزن بن جاتے ہیں۔
کسی فرد کو کرپشن کی لت پڑ جائے، تو پھر وہ معاشرے کے لیے نا سور بن جاتا ہے۔ اسے اپنی ذات کے علاوہ کسی سے کوئی غر ض نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ذات کے لیے کسی بھی حد سے گزر جاتا ہے۔ ان لوگوں کا ضمیر مرجاتا ہے۔ ہر سطح کی کرپشن کا نشانہ ہمیشہ غریب عوام ہی بنتے ہیں۔ کرپشن کا عمل دیکھنا شاید ہمارے لیے ایک معمولی آنکھوں دیکھا حال ہو، لیکن ایک مزدور کی مزدوری چھین کر اس غریب خاندان کی کیا حالت ہوتی ہے؟ اس کا اللہ ہی عالم ہے، جو مزدور چھے سات سو روپے کے عوض کام کرتا ہے، اس سے ناجائز رقم کا مطالبہ کرنا دو وقت کی روٹی چھیننے کے مترادف ہے۔ یہ ایک نہیں، ہزاروں غریب مزدوروں کی کہانی ہے۔
قارئین، پہیلیاں بھجوانے سے بہتر ہے کہ سیدھی سیدھی بات کی جائے۔ گذشتہ روز مینگورہ کے نواحی علاقہ بارامہ میں ڈائنا گاڑی ڈرائیور سے حادثاتی طور پر بے قابو ہوکر بجلی کے کھمبے سے جا ٹکرائی، جس کی وجہ سے کھمبے پر نصب شدہ ٹرانسفار مر کا لنک کٹ گیا، اور بجلی منقطع ہوگئی۔ مطلوبہ لنک اکثر لوڈ کی وجہ سے بھی کٹ جایا کرتا ہے، جو علاقہ کے لائن مین اپنی ڈیوٹی کے دوران میں لمحوں میں دوبارہ ٹھیک کر دیتے ہیں۔ مرمت کے اس عمل پر پانچ دس منٹ کا وقت لگ جاتا ہے۔ مذکورہ واقعہ رونما ہوا، توحسبِ معمول علاقے کے لوگوں نے لائن مین کو کال ملائی، اور اطلاع دی کہ ڈائنا گاڑی کی ٹکر سے لنک کٹ گیا ہے۔ اس پر لائن مین نے جواباً کہا کہ ڈائنا ڈرائیور کو میرے آنے تک روک رکھیں۔ کچھ دیر میں لائن مین ”ا عظم خان“ اور ایک واپڈا اہلکار (جو اعظم خان کے مطابق سپرٹنڈنٹ تھا) دونوں پہنچ گئے۔ اہلکاروں نے پہنچتے ہی تلخ لہجے میں ڈرائیور سے بات شروع کی۔ مذکورہ اہلکار بار بار یہی کہتے رہے کہ ڈرائیور کی وجہ سے ہماری نیند خراب ہوئی ہے۔ انہوں نے ڈرائیور سے شناختی کارڈ اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اسے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد لنک ٹھیک ہوگیا۔ واپڈا اہلکار ڈرائیور سے دوبارہ چھیڑ چھاڑ کرنے لگے کہ اب ہم رپورٹ بنائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ ڈرائیور نے سابق ضلع کونسلر نثار خان کو اس معاملے کی اطلاع دی، تا کہ واپڈا اہلکار اس کے ساتھ نرمی برتیں۔ نثار خان نے اعظم خان نامی اہلکار کو کال کی اور تعاؤن کرنے کے لیے کہا، لیکن واپڈا اہلکاروں نے ان کی ایک نہ سنی۔ دیگر لوگوں کی مداخلت پر واپڈا اہلکاروں نے ڈرائیور سے پانچ ہزار روپے کا مطالبہ کیا، جس پر وہاں موجود دکاندار مظفر خان نے التجا کی کہ یہ ایک غریب ڈرائیور ہے جو مزدوری پر کام کرتا ہے۔ یہ جو مرمت آپ نے کی، وہ آپ کے روزانہ کی بنیاد پر ڈیوٹی بنتی ہے۔ سابق ضلع کونسلر اور دیگر لوگوں کی مداخلت کے باوجود دونوں نے ڈرائیور سے بغیر کسی ثبوت یا سرکاری رسید کے سرِعام بڑی دیدہ دلیری سے پیسے وصول کیے۔
قارئین، اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حضرتِ اعظم خان نے پیسے کسی سرکاری خزانے میں جمع کرائے ہیں؟ اگر ہاں، تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اور اگر نہیں، تو کیا یہ شیرِ مادر ہے؟
قارئین، اس ناانصافی کا گلہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں سے نہیں، بلکہ ان کے سربراہوں سے ہے، کہ جن کی سربراہی میں اُن کے اہلکار راہزن بنے پھرتے ہیں، اور سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی لوٹتے ہیں۔
ہمارے بڑے اکثر کہا کرتے تھے کہ ادارے کے بڑے ٹھیک ہوں،تو سارا نظام خود بخود ٹھیک ہوتا ہے۔ اگر ملازم غریب مزدور کی مزدوری چھیننے کے درپے ہو، تو پھر وہ سرکاری ساز و سامان اور مرمتی اشیا جو انہیں استعمال کے لیے دی جاتی ہیں، اُن کا کیا حشر ہوتا ہوگا؟ کیوں کہ ٹرانسفارمر کی مرمت کی رقم، تو روز اول سے غریب عوام سے ہی وصول کی جاتی ہے۔
اس حوالہ سے ہے کوئی پوچھنے والا……!!!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں