ایچ ایم کالامیکالم

سوات کوہستان سے ڈی آئی جی ملاکنڈ کے نام کھلا خط

محترم ڈی آئی جی ملاکنڈ محمد اعجاز خان، امید ہے آپ بخیروعافیت ہوں گے۔
جناب والا! راقم ایک ادنیٰ سا لکھاری ہے، جس کی کل طاقت ایک قلم ہے جس کو اخبار کے اس صفحے پر جنبش دیتے ہوئے اپنے جیسے عام اور محکوم لوگوں کی آواز بننے کی کوشش کرتا ہے۔
جناب والا! اس سے پہلے کبھی اس طرح کے کھلے خط کی صورت میں کوئی فریاد لے کر آپ کی خدمت میں حاضری نہیں کی۔ یہ سطور آپ کے حضور انتہائی بے بسی کے عالم میں ایک مظلوم اور شریف النفس شہری کی آواز کو آپ کے ایوان تک پہنچانے کی غرض سے نوک قلم پہ لارہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ انہیں پڑھ کر ایک مجبور شہری کی داد رسی ضرور کریں گے۔
جناب والا! راقم الفاظ کے ہیر پھیر یا تمہیدیں باندھنے کا قائل نہیں، اس لیے اصل مدعا کی طرف آتے ہیں۔
جیساکہ آپ صاحبان کو معلوم ہے کہ موجودہ نامساعد حالات کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے ”احساس پروگرام“ کے نام سے مستحقین کو پرانے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سہ ماہی قسطیں یکمشت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس بات سے بھی آپ صاحبان بخوبی واقف ہوں گے کہ رقم دینے والے ایجنٹس کو بینک فی ٹرانزیکشن 35 روپے بطورِ سروس دے رہی ہے۔ چوں کہ ہمارے علاقوں میں متعلقہ بینک کا کوئی برانچ موجود نہیں، اور رقم کی وصولی کے لیے سو کلومیٹر دور مینگورہ سفر کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب لاک ڈاؤن کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہوچکی ہے، بینک کھاتے کے لیے خصوصی گاڑی بک کرنی پڑتی ہے، جس کا کم سے کم خرچہ چھے ہزار روپے فی ٹرپ بنتا ہے۔ اس پر مصیبت یہ کہ ہمارے علاقے میں بجلی کا نظام بھی معطل ہے۔ بدیں وجہ ایجنٹس کو جنریٹر کی مد میں تیل کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
جنابِ من! حاصل کلام یہ ہے کہ کالام سے بیس کلومیٹر شمال میں واقع پس ماندہ ترین وادی اتروڑ کے مستحقین کے لیے اپنی رقم کا حصول درد سر بن چکا تھا۔ تین دن قبل معززینِ اتروڑ نے متفقہ فیصلہ سنایا کہ ایجنٹس کو صارفین، اخراجات کی مد میں چار سو روپے اضافی ادائیگی کریں گے، جس سے ایجنٹس کو بھی مالی نقصان نہ ہو اور مستحقین کی مشکلات کا ازالہ بھی ہوسکے۔ جرگہ مشران کا تمام بیان ریکارڈ کی صورت میں راقم کے پاس موجود ہے، بوقتِ ضرورت آپ کی عدالت میں پیش کرنے کا ضامن ہوں۔ دو دنوں تک طے شدہ معاہدے کے تحت پولیس کی نگرانی میں مستحقین میں رقم کی تقسیم کا سلسلہ جاری رہا۔
پھر ہوا یوں کہ اتوار کی دوپہر کو دورانِ صحافتی ذمہ داری، راقم اپنے علاقہ کالام کے ایس ایچ او اکبر حسین کے ساتھ محو گفتگو تھا کہ ان کے موبائل فون پر وٹس ایپ کے ذریعے صوتی پیغام موصول ہوا، جوکہ اسسٹنٹ کمشنر بحرین سکندرخان کی جانب سے فارورڈ شدہ تھا۔
یہ پیغام سادہ الفاظ میں پی ٹی آئی سوات یوتھ ونگ کے صدر آصف علی شہزاد صاحب کی جانب سے حکم نامہ تھا، جس میں انہوں نے ایک حکم جاری کیا تھا کہ ان کے آبائی گاؤں اتروڑ میں ”احساس پروگرام“ کے مستحقین سے چار سو روپے کٹوتی کرنے والے ایجنٹس کو فی الفور گرفتار کرکے حوالات میں پابند سلاسل کیا جائے۔
حکم نامہ سننے کے بعد ایس ایچ او اکبر حسین صاحب نے اپنا تبصرہ راقم کے ساتھ شریک کرتے ہوئے خود بھی وضاحت کی کہ جب قوم نے متفقہ فیصلہ سنایا ہے، تو ایسے میں اب اس حکم نامے کی کیا تُک؟ اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان ایجنٹس کو حوالات میں بند کرنے کے لیے ایس ایچ او صاحب نے اتروڑ چوکی کو گرفتاری کا حکم دے دیا۔
جناب والا!یہاں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ عوام کی جانب سے ایجنٹس کی تقرری کرتے ہوئے ایک پاک دامن استاد، معمار ِقوم، شاعر، ادیب اور معروف سماجی کارکن ”سلیم خانی“ کو بھی ان کی تعمیراتی و مخلصانہ سوچ اور پاک دامنی کے سبب بطورِ ایجنٹ کام کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ایک اور گبرال سے تعلق رکھنے والے موبائل شاپ کیپر احسان رحیم کو بھی چار سو روپے کٹوتی کے معاہدے کے تحت ایجنٹ مقرر ہونے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مَیں نے گرفتاری سے قبل ایس ایچ او صاحب کے سامنے سوال اٹھایا کہ جب آپ صاحبان کو پہلے سے ہی علم ہے کہ کٹوتی کے بغیر شہروں کی نسبت یہاں رقوم کی تقسیم ناممکن ہے، تو آپ ایک شریف النفس استاد کو ہتھکڑیاں پہنانے جا رہے ہیں، آپ کا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ تو ان کا جواب کچھ یوں تھا کہ بس حوالات میں ایک تصویر کھنچوانی ہے، اور اسسٹنٹ کمشنر کو یقین دلانا ہے کہ ہم نے ”آصف شہزاد“ نامی شخص کے حکم پر مطلوب ایجنٹس کو گرفتار کرلیا ہے، آگے اللہ خیر کرے گا!
جناب والا! میں نے اسی دوران ایک اور نکتہ اٹھالیا کہ اگر خدانخواستہ یہ تصویر سوشل میڈیا تک پہنچ گئی، تو ایک معمارِ قوم کی سرعام تذلیل و تضحیک ہوسکتی ہے۔ ایک تصویر کے سبب سیکڑوں طلبہ اور سوات کوہستان کے طول عرض سے ان کے مداحوں کے سامنے ان کی عزت دو کوڑی کی ہوجائے گی۔ پھر اس تذلیل و تضحیک اور ان کے دامن پہ لگے داغ کو اہلیانِ سوات کوہستان اپنے خون سے بھی صاف کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، مگر جواب بڑا کرارا آیا کہ تصویر ”تحصیل کے بادشاہ“ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس جانی ہے، میرے وال پہ تھوڑی جانی ہے کہ سرِعام عزت کا کباڑا ہو۔
خیر، مَیں نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور واپسی کی راہ اختیار کرلی۔ شام کو سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل دیکھی جس پر مختلف تبصروں کی شکل میں غم و غصے سے کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ تصاویر ہتھکڑیوں میں جکڑے سلیم خانی اور احسان رحیم کی تھی۔ اس واقعے پر خبر بنانے کی خاطر راقم جب تھانہ کالام پہنچا، تو سلیم خانی بدستور حوالات میں بند تھا، جب کہ دوسرا ملزم حولات میں دس منٹ گزار کے واپس پروٹوکول کے ساتھ اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔ سلیم کے بقول احسان رحیم ان کے ساتھ ہی معاہدے کے تحت احساس پروگرام کے تحت چار سورپے اضافی اخراجات کے ساتھ رقم تقسیم کررہے تھے، لیکن فرق یہ کہ وہ پی ٹی آئی کا سرگرم کارکن تھا اور آپ کو تو پتا ہے کہ گرفتاری کا حکم ان کے صدر صاحب کا تھا، اس لیے وہ دبے پاؤں نکل گئے اور مجھے ایک عام شہری کے ناتے دفعہ 408 کے تحت مجاز عدالت میں مقدمہ لڑنا ہوگا۔
جنابِ والا! جب معاملے کی گہرائی جانچنے کے لیے راقم نے اسسٹنٹ کمشنر بحرین سے مؤقف لیا،تو ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری عوامی شکایات پر ہوئی ہے اور تصویر کے بارے میں وہ لاعلم ہیں کہ کس نے اپلوڈ کی ہے؟ جب عوامی شکایات بارے تفصیل مانگنے کی جسارت کی، تو جواب ندارد۔ حتی کہ ایس ایچ او کالام اور اسسٹنٹ کمشنر بحرین پی ٹی آئی یوتھ کے صدر کی جانب سے بھیجا ہوا وٹس ایپ حکم نامہ بھی دینے سے مکمل انکاری ہیں، تاکہ جس کی مدد سے علاقہ مشران مجاز عدالت میں جواب دیں کہ ایک شخص کے حکم پر جملہ قوم کے فیصلے کو پاؤں تلے روند کر ایک شریف النفس اور پاک دامن استاد کو حوالات او رعدالت میں ذلیل کروایا گیا ہے۔
جناب والا، کیا آئین پاکستان میں یہ گنجائش موجود ہے کہ قوم کے فیصلے کے برعکس ایک پارٹی یوتھ صدر، اسسٹنٹ کمشنر کو کسی کی گرفتاری کا پروانہ جاری کرنے کا حکم صادر فرما سکتا ہے؟
جنابِ من، آپ کی عدالت میں قوم کا فیصلہ غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے، لیکن کیا آپ کے قانون میں کوئی ایسا نکتہ موجود ہے جس کی بنا پر ایک ہی جرم کے دو ملزمان میں سے پارٹی بنیاد پر ایک کو بری الذمہ قرار دیا جائے، اور دوسرے کو جیل کی ہوا کھانی پڑے؟ کیا متعلقہ ایس ایچ او اور اسسٹنٹ کمشنر عوام الناس کی جانب سے درج کردہ شکایات کو میڈیا، علاقہ مشران سے چھپانا خود حکومت کے ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ“ کی خلاف ورزی نہیں؟
جناب عالی! ایک استاد اور ادیب کو بھی رہنے دیں، لیکن جب کسی ملزم کی عدالت میں پیشی ہی نہیں ہوئی ہو اور اسے سلاخوں کے پیچھے سے تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے اس کو خواہ مخواہ مجرم ثابت کرنا اور عزتِ نفس کو مجروح کرنا خود انتظامیہ کے لیے ہتکِ عزت کے مقدمے کا باعث نہیں بن سکتا؟
حضورِ والا! ایسے کئی واقعات روز دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن یہ اہم واقعہ آپ کے گوش گذار کرانا مقصود تھا۔ امید ہے کہ آپ سوات کوہستان میں قانون کے رکھوالوں سے قانون کی اس قسم کی تضحیک بارے جواب طلبی ضرور کریں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں