اسحاق میاںکالم

 رپورٹنگ میں احتیاط لازمی ہے

شادی بیاہ اور غم کے مواقع پر مختلف ناموں سے منسوب غیر ضروری اور غیر روایتی رسم و رواج ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ روایتی رسم و رواج کی جگہ غیر ضروری اور شہ خرچیوں پر مشتمل فضول رسومات نے لی رکھی ہے اور شادی بیاہ حتی کہ غم کو بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔
ہمارے آبا و اجداد انتہائی سادگی سے شادی بیاہ کی رسوم ادا کرتے اور غم میں فاتحہ خوانی بھی انتہائی سادگی سے ہوا کرتی تھی…… لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور روک ٹوک نہ ہونے کے سبب دن بہ دن رسم و رواج کے نام پر نت نئی فرمائشوں نے شادی بیاہ میں ہونے والے بے جا اخراجات نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اب یہ زخم بڑھ کر ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب اس کو روکنے کی سوا کوئی چارہ نہیں…… اور اگر ان رسومات میں تخفیف نہیں کی گئی…… یا انہیں لگام نہیں ڈالا گیا، تو نئی نسل ان کی بھینٹ چڑھ جائے گی اور آنے والی نسلیں ہم میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کریں گی۔
سوات میں اس مہم کا آغاز اگر چہ سال، ڈیڑھ سال پہلے ہی ہو چکا ہے…… اور اس سلسلے میں سوات کے مختلف علاقوں جن میں بریکوٹ، گاؤں مانیار، گاؤں پارڑئی اور دوسرے ملحقہ گاؤں شامل ہیں…… اس طرح علاقے کے معززین وقتاً فوقتاً آگاہی مہم چلاتے رہے ہیں…… اور لوگوں کو ان غیر ضروری رسومات کے خلاف آگاہ بھی کرتے رہے ہیں…… مگر عملی قدم تحصیلِ مٹہ کے گاؤں کوزہ درشخیلہ نے اُٹھایا اور باقاعدہ طور پر ان رسومات کے خلاف کچھ اصول و ضوابط مقرر کرکے اس عمل کو ایک طرح سے عملی جامہ پہنایا۔ یوں اسے علاقے کے عام لوگوں کی پذیرائی حاصل ہوئی اور سب نے متفقہ طور پر اس مہم کو گاؤں درشخیلہ کی حد تک کامیاب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔
قارئین، مَیں بذات خود ان رسومات میں فضول خرچیوں کے خلاف رہا ہوں…… اور میری بھی خواہش تھی کہ شادی بیاہ اور غم میں ان فضول رسومات کے لیے کچھ اصول اور ضابطے مقرر کرنے چاہئیں جن سے شادی بیاہ اور حتی کہ غم بھی متاثر ہوچکا ہے۔ بصورتِ دیگر ہم سب وقت کے ساتھ ان رسوم کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جمع پونجی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
جیسا کہ پہلے تحریر ہوچکا کہ مختلف گاوؤں میں شادی بیاہ اور غم کے مواقع پر بے جا اخراجات سے تنگ لوگوں نے اس مہم کو پذیرائی بخشی۔ کچھ گاوؤں اور دیہاتوں میں اس پر باقاعدہ وہاں کے معززین آپس میں مشاورت بھی کرتے رہے۔ اس سلسلے میں گاؤں ڈڈھرہ میں بھی شادی بیاہ میں نمود و نمایش کے لیے کی جانے والی شہ خرچیوں سے تنگ لوگوں نے علمِ بغاوت بلند کیا۔ مذکورہ مواقع پر غیر ضروری اور فضول رسومات کو ختم کرکے سادگی اور آسانی پیدا کرنے کی غرض سے گاؤں کے دوسرے معززین کے ساتھ مل کر متفقہ اصول اپنانے پر باہمی رضامندی اور متفقہ فیصلہ کرنے کے لیے صلاح و مشورے کا آغاز کیا۔
درشخیلہ میں ڈاکٹر انور، خادم اللہ اور ان کے دوسرے دوستوں نے چوں کہ پہلے ہی سے کچھ اصول و ضوابط مقرر کر رکھے تھے، لہٰذا انہی کے قوانین پر مبنی ضابطہ کو گاؤں کے معززین کے سامنے پیش کرکے ان کی رائے جاننے اور ضروری ترامیم کے بعد گاؤں ڈڈھرہ کے غریب، امیر اور متوسط طبقے کے لیے آسانی پیدا کرکے راہ ہموار کرنا مقصود تھا، تاکہ اونچ نیچ نہ رہے اور سب ایک متفقہ اصول اپنا کر شادی، بیاہ اور غم میں غیر ضروری رسم و رواج میں اصلاح کرکے آسانی پیدا کریں۔
مذکورہ پیپر اور ویڈیو کو جب سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، تو یہ چیزیں جیسے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ مین سٹریم میڈیا پر بھی اس پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوا لیکن افسوس کہ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نیک مقصد کو منفی تاثر دیا گیا…… اور اس سلسلے میں نہ تو درشخیلہ میں موجود ذمہ داران ڈاکٹر انور اور خادم اللہ یا ڈڈھرہ میں موجود شریف زادہ، شاہ وزیر خان اور یا مجھ ناچیز سے اور نہ کسی دوسرے ذمے دار شخص سے رابطہ کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی۔ عجلت میں منفی تاثر پر مبنی خبر عوام کے سامنے پیش کی گئی جس نے سوات انتظامیہ کی بھی دوڑیں لگوا دیں۔
درشخیلہ یا ڈڈھرہ اور دوسرے گاوؤں کے اصول و ضوابط پر مبنی تحریر میں کہیں بھی یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ خلاف ورزی پر امامِ مسجد نماز جنازہ نہیں پڑھائے گا،نہ کوئی ایسی تجویز زیرِ غور ہی ہے۔ ہاں، البتہ عوام کا اس قانون پر عمل در آمد کرنے کے لیے دوسرے آپشن جیسے ’’ہلکا سا جرمانہ کرنا‘‘ زیرِ غور تھا۔
درشخیلہ میں اب تک لگ بھگ 16 نکاح اس سادہ طریقے کے ذریعے ہوچکے ہیں جس پر ہزار دو ہزار سے زیادہ خرچ نہیں ہوا ہے۔
جاوید چوہدری، انڈیپنڈنٹ اُردو، ڈیلی پاکستان، روزنامہ امت اور 92 نیوز چینل سمیت بعض دوسرے نامی گرامی میڈیا چینلوں نے بھی امام مسجد کے جنازہ نہ پڑھائے جانے والی خبر کو سرخی بنا کر غیر ذمہ دارنہ رپورٹنگ کی ہے۔ خواہ مخواہ ’’ہایپ‘‘ پیدا کرکے ایک اچھے مقصد کو مبینہ طور پر ناکام یا بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس خبر کے بعد مذکورہ چینلوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
سوات میں موجود صحافی برادری اس منفی خبر کے شایع ہونے کے بعد خود درشخیلہ جا کر ذمہ داران ڈاکٹر انور اور خادم اللہ سے مل چکی ہے۔ اس تحریر کے شایع ہونے سے پہلے امید ہے کہ اپنی پیشہ وارانہ اور ذمے درانہ صحافتی فریضہ سر انجام دیتے ہوئے حقایق پر مبنی رپورٹ شایع بھی ہو چکی ہوگی ۔
قارئین، صحافت ایک ذمے دارانہ پیشہ ہے۔ صحافی برادری معاشرے کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور منفی پہلوؤں کی نشان دہی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ خبر کو جب حقایق کے برعکس اور غیر ذمے دارانہ طریقے سے نشر کیا جائے، تو اس سے پورا ملک متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔
مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اتنے مؤقر اداروں نے کس طرح غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ کرکے علاقے کی بدنامی کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے خود اس سے پہلے شادیوں میں ’’ون ڈش‘‘ متعارف کرانے کی کوشش کی ہے، مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہوا، تو اگر ہر گاؤں میں کچھ ایسے اصول اپنی مدد آپ کے تحت اپنائے جائیں جن سے وہاں کے باسیوں کے لیے آسانی پیدا ہو، تو اس میں کیا حرج اور پریشانی ہے؟ یہ عمل نیک نیتی سے شروع کیا گیا ہے۔ اسے ہرگز منفی تاثر نہ دیا جائے۔خدارا! تحقیق کے بغیر محض ’’ریٹنگ‘‘ اور ’’ہایپ‘‘ پیدا کرنے کے لیے غلط رپورٹنگ نہ کی جائے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں