امجدعلی سحابؔکالم

مینگورہ، اک شہر بے مثال (ساتویں قسط)

90ء عیسوی کی دہائی میں نشاط چوک کے ساتھ ساتھ ’’کتیڑے‘‘ میں بھی رونق لگی رہتی تھی۔ ذہن پر زور ڈالتا ہوں، تو چار پانچ لوگ ہی یاد پڑتے ہیں: بٹیار ماما، ریوڑو والا ماما، فالی ماما، گڑ کا شربت بیچنے والا (وقار اور اسد کا والد) اور بہ طورِ خاص ’’طوفان مداری‘‘ جس کی ہر ادا یاد ہے۔ (’’ماما‘‘ لفظ گرچہ اُردو میں نوکرانی، خادمہ، بوڑھی عورت وغیرہ کے لیے مستعمل ہے، مگر پشتو میں بچے اسے تعظیماً درمیانی عمر کے افراد کے لیے استعمال کرتے ہیں)
’’کتیڑا‘‘ کے حوالے سے ہمارے بزرگ لکھاری فضل رازق شہابؔ کہتے ہیں: ’’میرے ناقص علم کے مطابق کتیڑا ہندی لفظ ’کٹھڑا‘ کی بگڑی شکل ہے۔ پشاور میں آج بھی کئی کٹھڑے دیکھنے کو ملتے ہیں جو مختلف شخصیات سے منسوب ہیں۔ مینگورہ کا وہ حصہ جس میں بینک سکوائر، متصل بازار، مسجد اور تاج ہوٹل قائم تھا، بادشاہ صاحب کی ملکیت تھا۔ مجھے یاد ہے بعض دکانوں کے بورڈز پر پروپرائٹرکے ساتھ ’کٹھڑا شاہی گنج‘رقم تھا۔ ‘‘
دوسری طرف فرہنگِ آصفیہ کے مطابق ’’کٹھڑا‘‘ لفظ کے معنی’’منڈی‘‘ یا ’’چھوٹا بازار‘‘ کے ہیں۔
سوات کے سنیئر صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں: ’’مَیں نے ریاستی دور کی ایک تصویر میں کتیڑا کے خالی میدان (بالمقابل سروس شوز) میں تانگے کھڑے دیکھے ہیں۔ لوگ تو عموماً پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے، مگر سودا سلف تانگے میں گھر لے جایا کرتے تھے۔‘‘
’’کتیڑے‘‘ میں بٹیار ماما نے ایک درمیانی سائز ہتھ ریڑھی میں مٹی کے لیپ سے چھوٹی سی بھٹی بنائی تھی۔ بھٹی کے اوپر شٹرنگ کے کام میں استعمال ہونے والاتھال نما برتن (جسے ہم پشتو میں ’’ٹاٹکے‘‘ کہتے ہیں) کمال مہارت سے فٹ کرکے رکھا ہوا تھا۔ بھٹی میں خشک لکڑی کی مدد سے آگ روشن رہتی اور بٹیار ماما صبح تا شام ’’بُھٹا‘‘، ’’بُھٹے کے دانے‘‘ (جنھیں ہم پشتو میں ’’نِنے‘‘کہتے ہیں) اور لذیذ ’’پاپ کارن‘‘ (پُلئی) تیار کرتے۔
بٹیار ماما کا کمال ملاحظہ ہو کہ وہ ’’بُھٹے کے دانے‘‘ یعنی نِنے دو قسم کے تیار کرتے۔ ایک قسم کا دانا سخت ہوتا اور چباتے وقت لعابِ دہن کے ساتھ مل کر چیونگ گم سا بن جاتا۔ دوسری قسم کا نرم ہوتا۔ ہم لڑکے بالے اور جوان طبقہ سخت دانا پسند کرتے جب کہ بڑے بوڑھے نرم دانے کو ترجیح دیتے۔ مجھے ایک چونی کے عوض مکمل بُھٹا، ایک ہتھیلی بھر سخت دانے والے ’’نِنے‘‘ اور اتنا ’’پاپ کارن‘‘ ملتا کہ جس سے دونوں ہتھیلیاں باآسانی بھر سکتی تھیں۔
آج گو کہ مینگورہ شہر میں تقریباً ہر چوک میں ہتھ ریڑھی میں ’’پاپ کارن‘‘ بنانے کی مشین رکھی دکھائی دیتی ہے، اس میں لمحوں کے حساب سے ڈھیر سارا ’’پاپ کارن‘‘ بھی تیار ہوتا ہے:
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
بٹیار ماما کے بائیں ہاتھ ایک سفید ریش ریوڑیاں بیچنے والا بھی بیٹھا ہوتا، جسے ہم پشتو میں ’’ریوڑو والا ماما‘‘ کہتے تھے۔ اس کے ساتھ دو قسم کی ریوڑی دستیاب ہوتی۔ پہلی ’’سکہ نما‘‘ ریوڑی جب کہ دوسری قسم عام گول شکل کی ہوتی تھی۔ اولذکر کا حَجم اُس وقت اتنا بڑا ہوتا کہ ہماری چھوٹی سی ہتھیلی میں بہ یک وقت ایک ہی ریوڑی سما سکتی۔ یہ ریوڑی شکر کی بنی ہوتی اور مزا دوبالا کرنے کے لیے ان پر تِل (کونزلے) چڑھایا جاتا۔ جن حضرات نے ’’ریوڑو والا ماما‘‘ کے ہاتھ کی بنی ریوڑی چکھی ہے، وہ بہتر ریمارکس دے سکتے ہیں۔
کتیڑے کا مجھے یاد رہنے والا تیسرا دلچسپ کردار ’’فالی ماما‘‘ کا تھا۔ ’’فالی ماما‘‘ زمین کے اوپر سفید چادر پھیلا کر بائیں ہاتھ پنجرا رکھتا جس کے اندر ایک توتا خاموش بیٹھا ہوتا۔ پنجرے کے سامنے چادر کے دوسرے سرے تک چھوٹے چھوٹے لفافے نہایت سلیقے سے ایک دوسرے کے اوپر یوں رکھتاکہ جیسے ہی ایک لفافہ ختم ہوتا، تو دوسرا پہلے والے لفافے کا ایک انچ حصہ چھپا لیتا۔اس طرح چوتھا لفافہ پانچویں کا، پانچواں چھٹے کا اور آخر تک چھے سات قِطاروں میں یہی کوئی 50، 60 لفافے ایک دوسرے کے اوپر رکھے جاتے۔ جب بھی کوئی راہ چلتا ’’فالی ماما‘‘ کے پاس آکر اپنے مستقبل کا حال جاننے کی خاطر بیٹھتا، تو ’’فالی ماما‘‘ ایک چھوٹی سی چھڑی کی مدد سے چادر کے ایک سرے پر رکھے پنجرے کا دروازہ کھولتا۔ دوسرے ہی لمحے توتا نکل کر خراماں خراماں لفافوں کے اوپر قدم رکھتا آگے بڑھتا اور اپنی مرضی کا کوئی ایک لفافہ چونچ میں اٹھا کر ترتیب سے لگے ہوئے لفافوں میں سے نکال لیتا۔ اس کے بعد توتا پنجرے کا رُخ کرتا اور جیسے ہی واپس پنجرے کے اندر قدم رکھتا، فالی ماما چھڑی کی مدد سے دروازہ بند کردیتا۔ آخر میں لفافہ اٹھا کر اُس کے اندر پہلے سے رکھا گیا پیغام پڑھتا اور مستقبل کا حال جاننے والا جیب سے چونی یا اٹھنی نکال کر فالی ماما کے ہاتھ تھماکر لمبا بنتا۔
اس کے علاوہ فالی ماما ایک اچھا دست شناس بھی تھا۔ کئی بار اس کو پاس بیٹھے جوانوں اور نوجوانوں کے ہاتھ کی لکیروں کو ٹٹولتے اور ’’میگنی فائنگ گلاس‘‘ (Magnifying Glass) کی مدد سے ان کا جایزہ لیتے دیکھا۔
کتیڑے کا ایک اور زبردست کردار وقار، اسد اور ’’چاڑا‘‘ (جس کانام اس وقت مجھے یاد نہیں، لیکن ہر چھوٹا بڑا آج بھی اُسے ’’چاڑا‘‘ یعنی گونگا ہی پکارتا ہے) کا والد تھا۔ وہ گڑ کا شربت بیچتا تھا۔ راہ چلتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اُس کا نعرہ آج بھی مجھے یاد ہے:
واورہ د میاندم دہ
راوڑی بنیادم دہ
پہ سلور آنے گلاس دے
پہ سابت بازار کی پاس دے
موصوف کے ساتھ ایک ہاتھ لمبا لوہے کا گلاس تھا جس پر دلکش نقش و نگار بنے تھے۔ یہ گلاس ایک طرح سے شربت بنانے کے لیے ’’اوکھلی‘‘ کا کام کرتا۔ گلاس میں قدرتی برف (جو کالام، ملم جبہ اور میاندم سے ٹرک بھر کر لایا جاتا اور پورے شہر میں شربت بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کیا جاتا) ڈالا جاتا۔ اس کے بعد برف پر گڑ ڈالا جاتا اور لکڑی کے بنے بھاری موسل کی مدد سے تین تا پانچ منٹ برف کو خوب کُچلا جاتا۔ پھر جیسے ہی مذکورہ لوہے کے گلاس سے تیار شربت شیشے کے گلاس میں ڈالا جاتا، تو گاہک کا دل بلیوں اچھلتا۔ کئی بار جون جولائی کے موسم میں ایک گلاس شربت حاصل کرنے کے لیے انتظار کے کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑتا۔ کیوں کہ مذکورہ لوہے کے گلاس میں بہ یک وقت اتنا شربت تیار ہوتا جو بہ مشکل تین افراد تک پہنچتا۔ شربت کی مٹھاس شربت بنانے والے کے ساتھ گئی۔
اب وہ الفاظ کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں جب ایک گھونٹ حلق سے اُتارنے کے بعد ہونٹوں پر زبان پھیر کر ایک اور گھونٹ کی تیاری کی جاتی تھی۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
کتیڑے کا دلچسپ ترین کردار ’’طوفان مداری‘‘ کا تھا۔ جانے وہ اب زندہ بھی ہوں گے یا پیوندِ خاک ہوچکے ہوں گے!
طوفان مداری کے ساتھ کئی بار بہ طورِ معاون حاضرین سے داد وصول کی۔ وہ جیسے ہی مجمع لگاتے دوسرے ہی لمحے بہ آوازِ بلند کہتے: ’’ہے کوئی میرا شاگرد بننے والا!‘‘ کئی بار مَیں ایک قدم آگے آتا اور سلسلہ چل پڑتا۔
طوفان کمال کا آدمی تھا۔ کاندھے میں ایک رسی کی مدد سے گٹھڑی سی بنائی تھی۔ یہ گویا عمرو عیار کی زنبیل تھی۔ کتیڑے کی سڑک کے ساتھ لگے کھلے میدان میں گٹھڑی رکھتا۔ اس کے بعد ہاتھ اندر ڈالتا اور ایک کے بعد ایک چیز نکالتا۔ بانسری، ڈگڈگی، نوٹ بنانے والا ڈبا، رنگارنگ تاروں والا ڈبا، دوا کی دو انچ لمبی دو تین درجن شیشیاں، گول چھوٹے چھوٹے مالش والے ڈبے، سانپ کی پٹاری وعلی ہذا القیاس۔
نمازِ جمعہ کی ادائی کے بعد مذکورہ سامان سلیقے سے سجا کر ایک ہاتھ میں بانسری اور دوسرے میں ڈگڈگی لے کر راہ چلتوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرتا۔ پانچ منٹ کے اندر اندر کتیڑے کا میدان ایک بڑے گول دایرے کی شکل میں بھر جاتا اور طوفان مختلف قسم کے چٹکلوں، طنز و مزاح اور کرتب وغیرہ کی مدد سے حاضرین کو ہپناٹایز(Hypnotize) کرتا۔ جب حاضرین کے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے اور ان کا شوقِ دید انتہا کو پہنچتا، تو وہ پیترا بدل کر دعوا کردیتا: ’’مہربان، قدردان! میرے ساتھ گٹھڑی میں ایک ایسا سانپ ہے جو ایک نارمل انسان کو سالم نگل سکتا ہے۔ اُس سانپ کی چربی سے مَیں ایک دوا بناتا ہوں، جو سر درد، کمر درد اور جوڑوں کے درد کے لیے مفید تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ مردانہ کم زوری دور کرنے کے لیے گویا اکسیر ہے۔‘‘
مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک 60 سالہ بابا نے دو روپے کے عوض شیشی خریدنے کی درخواست کی، تو طوفان نے برجستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’بابا! دا وخت خو ستا د اللہ اللہ دے، او تہ لگیا یے لیلا لیلا کوے!‘‘ اس پر پوری محفل زعفران زار ہوئی۔
یہ واقعہ رقم کرتے وقت اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ طوفان نے کرتب ورتب دکھانے اور مجمع کو ہنسانے کے بعد دوا کی شیشیاں نکالیں، تو ’’رسپانس‘‘ اچھا نہیں ملا۔ طوفان نے دائیں ہاتھ میں اپنی ٹوپی کشکول کی شکل میں پکڑی اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں کتیڑے کے میدان سے چٹکی بھر خاک اُٹھائی، اسے بند آنکھوں سے دم کرتے ہوئے علی الاعلان کہا: ’’اگر سب نے ایک ایک روپیا اس ٹوپی میں نہیں ڈالا، تو بخدا یہ دم شدہ خاک میں آپ لوگوں کی طرف پھینکتا ہوں اور دوسرے ہی لمحے آپ کے اعضائے مخصوصہ غایب ہوں گے۔‘‘ کیانوجوان کیا جوان سب ایک ایک روپیا جیب سے نکال کر ٹوپی میں رکھنے لگے۔ جن کے پاس پیسے نہیں تھے، وہ دور بھاگ کر دکانوں کے تھڑوں پر کھڑے ہوکر نظارہ کرنے لگے۔ مجھے آج بھی یاد ہے ایک 60، 70 بابا جی نے دو روپے کا نوٹ پکڑ کر اپنے پوپلے منھ سے طوفان کو پکارتے ہوئے کہا: ’’الکہ طوپانہ! دا واخلہ ظالمہ، د سامانہ می خلاص نہ کی!‘‘ دوسرے ہی لمحے محفل قہقہوں سے گونج اٹھی۔
یار زندہ، صحبت باقی!

متعلقہ خبریں

1 تنبصرہ

Armania Ghazi May 21, 2022 at 11:09 am

آج ایک نہائت ہی موضوع پر لکھنے کو دل کر رہاہے۔ جیسے کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ میری کسی بھی سیاسی پارٹی سےکوئی وابستگی نہیں۔ جس میں جو کچھ بھی دیکھا میں نے برملا اس پر کامنٹ اور پوسٹ کی ہے اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں صرف سیاستدانوں کے بارے میں نگیٹیو پوسٹ کرنےکی عادی ہوں۔ آج میں نے ایک ایسے نوجوان کے بارے میں پوسٹ کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ جو پچھلے بلدیاتی ایلکشن میں جنرل سیٹ کیلئے پی ایم ایل ن کے صوبائی نائب صدر اور حلقے میں طاقتور پی ٹی آئی اور اے این پی کے امید واروں کے مقابلے میں یک تنہا امید وار تھا۔جس نےمسلم لیگ ن کے صوبائی نائب صدر کو ناکوں چنے چبوائےجسکو پی ایم ایل ن کے صوبے کی نائب صدارت خطرے میں لگنے لگی۔ اسکے لئے کمپیں کرنے والے پی ایم ایل ں کی مشنری اور علاقے حلقے کے اکابرین کی ساری کوشیشیں دم توڑنے لگی تو اسکے گھر کے بالکل پڑوس میں خواتین کا پولینگ سٹیشن اسکی نائب صدارت کو بچانےکے کام آگئی جسمیں ووٹینگ کیلئے آنے والی غریب خواتین کو ووٹ ڈالنے سے اپنےگھر لے جا کربریانی کھلائی بھی اور اسکے گھر پارسل بھی ساتھ دینے کے ساتھ دوہزار روپے جیب ڈالتے ہوئے ووٹ لینے کیلئے قسم لے لئے اور دوسری طرف اس نوجوان کے اپنے پارٹی کےاس حلقے کے واحد رکن نے نه صرف اس نوجوان خدائی گار کے کمپین میں حصہ لینے انکار کیا بلکہ ووٹ بھی پی ایم ایل ن کو دے دیا لعنت ہو اسپر۔یہ نوجوان امید وار خود کمبوں پر چڑھ کر پوسٹر لگانے کے ساتھ ساتھ صرف دونفری کمپیں کے ساتھ پی ایم ایل ن کے نائب صدر کے صدارت کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوا نہائت ہی چھوٹے مارجن سے چیرمین شپ جیت لی لیکن آصل جیت محمد سلیم ماما کی ہوئی کہ جس نے نائب صدر کی صدارت نہ صرف خطرے میں ڈال دی بلکہ پی ٹی آئی اور اے این پی بڑے مارجن سے ہرا کر اپنے پارٹی کی جگہ حلقے میں مستحکم کی۔محمد سلیم ماما وہ شخص ہے جو حلقے سب کی خدمت بغیر کسی سیاسی پارٹی کے وابستگی کی کرتا ہے ۔ اللہ پاک نے اسکی خدمت ہی کے وجہ اسکو یہ مقام دیا اور انشا الله اسکا مستقبل شاندار ہوگا۔

Reply

تبصرہ کریں