بڑے خوش قسمت ہیں وہ بزرگ حضرات جنھوں نے بانیِ سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب اور والیِ سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کے دورِ حکومت کو شعور کی حالت میں دیکھا ہے۔ موخرالذ کرکے دورِ حکومت کو دیکھنے والے ماشاء اللہ اب بھی بہت سارے ہیں، لیکن بادشاہ صاحب کے دورِ حکومت کو دیکھنے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔ یہ ایسے حضرات ہیں جو بارہ دسمبر 1949ء میں والی سوات کی تاج پوشی کے وقت سن شعور کو پہنچ چکے تھے۔ ایسے بزرگ اب چھیاسی، ستاسی سال کی عمر میں جی رہے ہیں۔
سوات کے مرکزی شہر اور دارالخلافہ سیدو شریف میں جہاں تک مَیں جانتا ہوں ایسے بزرگوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں۔ بادشاہ صاحب 1881ء میں پیدا ہوئے اور یکم اکتوبر 1971ء کو وفات پاگئے۔ یوں ان کا دیدار کرنے والے اب بہت سارے لوگ موجود ہیں اور ہر دو شخصیات اور اُن کے اوصاف اور طرزِ حکومت کے بارے میں مزے لے لے کر معلومات فراہم کررہے ہیں۔ ان کی مسحور کن شخصیات سے متاثر ہونے والوں میں راقم الحروف بھی شامل ہے۔
یہ غالباً 1954-55ء کا زمانہ تھا جب میری عمر کوئی پانچ چھے سال ہوتی ہوگی اور اسی طرح یہ میرے بچپن کی اولین یادداشت تھی۔ ہوا یوں کہ مجھے ’’کالی پرایگزیما‘‘ یعنی داد کا جلدی مرض لاحق ہوا۔ یہ عموماً ایسا دھبا ہوا کرتا ہے، جو فشارِ خون کے باعث جسم کے کسے حصے پر ظاہر ہوتا ہے جس میں شدید کھجلی محسوس ہوتی ہے۔ پشتو میں اسے عام طور پر ’’سپونڑے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُن دنوں ایسے امراض کی ہسپتال سے علاج کروانے کی حالت بہت ابتر بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ ریاست بھر میں صرف ایک ڈاکٹر تعینات تھا جو سنٹرل ہسپتال سیدو شریف میں بہ حیثیتِ انچارج اپنے فرایضِ منصبی سر انجام دیتا تھا۔ اس نے ایم بی بی ایس یا اس طرح کی تعلیم نہیں پائی تھی بلکہ آرمی میڈیکل کور میں کچھ واجبی قسم کی تربیت حاصل کی تھی اور جیسا کہ والی صاحب ریاست کے بعض اداروں خاص کر صحت اور تعلیم کے شعبوں کو چلانے کے لیے ریاست سے باہر کے کچھ لوگ راضی کرکے یہاں خدمات انجام دینے کے لیے لائے تھے، اُن میں مذکورہ صاحب بھی ایک تھے۔ نام تو ان کا غلام محمد تھا لیکن وہ اس کے ساتھ ’’کیپٹن ریٹائرڈ‘‘ کا سابقہ استعمال کرتے تھے۔ ہسپتال میں بلا شرکتِ غیرے خود مختار ہونے کے ناتے وہ خود ہر مرض کا علاج تجویز کرتے تھے۔ پیٹ کے مریض کو جلاب دینے کے لیے مشہور تھے۔ ہر قسم کے بخار کے لیے زرد رنگ کی چھوٹی چھوٹی کونین کی گولیاں استعمال کرنے کی ہدایت کرتے تھے، جن کو شدید کڑواہٹ کی وجہ سے نگلنا خاص مشکل کام تھا۔ دیگر دوائیوں میں نمبر 10 اور نمبر 12 جو مایع شکل میں تھیں، دست یاب تھیں۔
اس طرح جلدی امراض کے لیے مرہم اور مایع حالت میں ایک قسم کی نیلی دوائی بھی شامل تھی۔ مریض کو یہ ساری دوائیاں ہسپتال سے مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ جلاب (جس کا اوپر ذکر کیا گیا) بھی مایع حالت میں ایک بھری بوتل ہسپتال سے فراہم کیا جاتا تھا جس کے استعمال سے زبردست اسہال کا عمل شروع ہوجاتا اور پیٹ کا سارا گند خارج ہوتا تھا، تو یہ تھا ڈاکٹر صاحب موصوف کا طریقہ علاج۔ البتہ انتظامی امور کے لحاظ سے وہ ایک سخت ترین اور بہترین منتظم تھے۔ خود بھی ڈیوٹی کے پابند اور ما تحت عملہ کو بھی ڈیوٹی کا پابند رکھا تھا۔ وہ سوات کے بڑے بوڑھوں میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔ شاہی محلات خاص کر بادشاہ صاحب کے محل میں بھی علاج کے لیے انھیں بلایا جاتا تھا۔ ان کی سرکاری رہایش گاہ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہسپتال سے بالکل متصل تھی، جسے وہ اپنی سبک دوشی تک استعمال کرتے رہے۔ بعد میں جب سوات کے مشہور و معروف کوالیفائیڈ ڈاکٹران صاحبان یعنی ڈاکٹر نجیب اللہ اور اپنے مینگورہ کے ڈاکٹر روشن ہلال صاحب محکمۂ صحت میں تعینات ہوئے، تو ڈاکٹر غلام محمد صاحب اپنے لیے 1968ء میں مویشی ہسپتال کے بالمقابل ذاتی مکان تعمیر کرکے وہاں مستقل طور پر منتقل ہوکر اپنی وفات تک رہایش پذیر رہے۔ مذکورہ مکان حال ہی میں مسمار کراکر لقمان ہسپتال کی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔
اپنی سبک دوشی کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مینگورہ کے نیو روڈ پر مطب کھول کر مریضوں کا علاج شروع کیا۔ آخرِکار ریاست سوات کے یہ پہلے معالج سواتی عوام کی بے لوث خدمت کرتے ہوئے 22 اگست 1984ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور گرلز ڈگری کالج سیدوشریف سے ملحقہ قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔ لوحِ مزار پر نام کے ساتھ الحاج کیپٹن غلام محمد کے الفاظ تحریر ہیں۔
آمدم برسرِ مطلب، میرے گال پر داد کی مرض کی بات ہورہی تھی۔ مَیں نے ہسپتال سے دست یاب علاج سے بھی استفادہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے گھریلو ٹوٹکے بھی استعمال کرتا رہا، لیکن
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق نتیجہ صفر رہا۔ اس اثنا میں میرے والد صاحب کو مجھے بادشاہ صاحب سے دم کرانے کا مشورہ دیا گیا۔ بادشاہ صاحب یعنی میاں گل عبدالودود کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ اس علاقے کی مشہور مذہبی شخصیت اخون صاحب سوات عبدالغفور المعروف سیدو بابا کے پوتے تھے۔ انھوں نے ایک کٹھن اور طویل جد و جہد کے بعد 1917ء میں سوات میں باقاعدہ ریاست کی بنیاد ڈال کر اپنے دورِ حکومت میں ریاستی علاقوں سوات، بونیر، شانگلہ اور انڈس کوہستان کے کونے کونے میں مثالی امن و امان قایم کیا تھا۔ دوسری فلاحی خدمات کے علاوہ 1926ء میں ودودیہ سکول، 1940ء میں سنٹرل ہسپتال، 1945ء میں دینی علوم کے لیے سیدوشریف اور چارباغ میں دارالعلوم کھولنے کے ساتھ ساتھ ریاست بھر میں سڑکوں کا جال بچھا کر مختلف تحصیلوں اور قلعوں میں ٹیلی فون کی سہولت فراہم کی تھی۔ 12 دسمبر 1949ء کو اپنے بڑے بیٹے میاں گل عبدالحق جہانزیب والی صاحب سوات کے حق میں رضا کارانہ طور پر دست بردار ہوکر باقی زندگی عبادتِ الٰہی میں بسر کرنے لگے تھے۔
بہر حال میرے والد صاحب مجھے انگلی سے پکڑ کر شاہی محل واقع عقبہ جو کہ اُس وقت ’’بڑینگل‘‘ کہلاتا تھا لے گئے۔ مذکورہ محل آج کل ’’اقراء پبلک سکول‘‘ کے طور پر زیرِ استعمال ہے۔ محل میں داخل ہوتے وقت ہماری تلاشی لی گئی اور نہ غیر ضروری پوچھ گچھ ہی کی گئی۔ گیٹ پر موجود عملے سے صرف اتنا کہا گیا کہ بچے کو بادشاہ صاحب سے دم کرانا ہے، اور سیدھے محل میں داخل ہوئے۔
سردی کا موسم تھا۔ بادشاہ صاحب محل کی مرکزی عمارت کی جانب جنوب ایک طویل و عریض حوض کے شمال، مشرقی کونے پر سنگ مرمر کے بنے خوب صورت چبوترے پر غالیچے پر تشریف فرما تھے اور سامنے رحل پر پڑے قرآنِ پاک میں تلاوت میں مشغول تھے۔
ویسے تو اپنے وقت کی اس عظیم اور جری شخصیت کو ہر دوسرے، تیسرے روز جب وہ اپنی لاری نما گاڑی میں یا اپنے عملے سمیت پیدل سیر کے لیے نکلتے، ذرا سے فاصلے پر دیکھنے کا موقع ملتا، لیکن آج منظر ہی کچھ اور تھا۔ میرے والد نے سلام کرکے آنے کا مدعا بیان کیا۔ بادشاہ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلا کر اپنے بالکل قریب ہی اپنے پاس بٹھایا۔ چپکے چپکے سے کچھ پڑھتے رہے۔ یقینا قرآنی آیات یا مخصوص مسنون دعائیں پڑھی ہوں گی۔ کئی بار اپنی انگلیوں پر اپنا لعاب دہن تھوک کر میرے متاثرہ گال پر پھیر کر پھونک مارتے رہے اور دوبارہ اشارے سے رخصت ہونے کے لیے کہا۔
اس کے بعد میرے والد نے دعائیں دیتے ہوئے الوداعی سلام عرض کیا۔ یوں مجھے اس عظیم تاریخ ساز شخصیت اور مردِ آہن سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جن کی انگلیوں کا لمس آج بھی مَیں محسوس کررہا ہوں۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین!