افسر آباد (سیدو شریف، سوات) سے لے کر ٹیلی فون کے مرکزی ایکسچینج تک ایک خالی میدان ہوا کرتا تھا، جس کے ایک اینڈ پر کچھ مکانات تھے۔ اُن میں اکبرجان ماما اور عبداللہ کے گھر تھے۔اولا الذکر والئی سوات کے ذاتی سٹاف میں شامل تھے، جب کہ ثانی الذکر یعنی عبداللہ کو ہم سب لالا کہتے تھے، سنٹرل ہسپتال میں کمپاؤنڈر تھے۔یہ ہمارے خصوصی مہربان تھے۔ بچپن میں میری آنکھیں اکثر دُکھنے لگتیں، تو لالا اُن کو ہسپتال میں اُبلے ہوئے پانی سے دھوتے۔ پھر اُس میں ڈراپر سے دوا ڈالتے۔ اوپر گرم گرم کاٹن کے پھاہے اور روئی رکھ کر پٹی باندھ لیتے۔ اُس سالانہ طفلی عارضے نے میری ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔
لالا کو آپ کئی گھروں کا فیملی ڈاکٹر کَہ سکتے ہیں۔ انھیں تو ہمارا گویا چچا سمجھ لیں۔اکبر جان ماما کا ایک بیٹا محمد اقبال میرے بھائی کا ہم سبق تھا۔ اقبال بعد میں سیدو پوسٹ آفس کے سپرنٹنڈنٹ بن کر ریٹائر ہوگیا۔ اکبر جان ماما ہر وقت چست اور صاف ستھرے کپڑے پہنتا تھا اور سردیوں میں دفتری سٹاف کے دوسرے عملے کی طرح ہلکے رنگ کی شیروانی پہنتا تھا۔ سر پر قراقل ٹوپی اور اُس پر لگا ہوا مخصوص شاہی نشان بھلا لگتا تھا۔
اُسی میدان میں لڑکے مختلف کھیل کھیلتے۔ سردیوں میں افغان شتربانوں کے قافلے اُسی میدان میں اُترتے۔ یہ لوگ گڑ کے سوداگر تھے۔ہشتنغر وغیرہ سے منوں گڑ لاد کر یہاں آتے۔ یہ بڑے دریا دِل لوگ ہوا کرتے۔بچوں کی للچائی ہوئی نظریں دیکھتے، تو سب کو تھوڑا تھوڑا گڑ کھانے کو تھمادیتے۔
مٹی کے اونچی اونچی چٹانوں میں غار نما مکان بھی تھے، جن کے صحن عام گھروں کی طرح ہوتے تھے۔چٹان میں بڑے بڑے ہال تراش لیے جاتے۔اسی قسم کے ایک گھر میں سیپاری ماما رہتے تھے۔ ایک اور گھر میں امیر ماما اور اس کا بھانجا گل حیدر کی رہایش تھی۔ گل حیدر تھوڑا بہت پڑھا ہوا تھا۔وہ میرے بڑے بھائی فضل وہاب اور ایک مشترکہ دوست محمد امین کا کلاس فیلو تھا، جو جلد ہی سوات سٹیٹ کے سگنلز میں بھرتی ہوا۔ اُس کی زبان میں اتنی مٹھاس تھی کہ لڑکے ہر وقت اسے گھیرے رہتے۔
ایک مکان میں میاں جان پاچا، نصراللہ جان اور جمشید ماما رہتے تھے۔ یہ لوگ ٹانگا چلاتے تھے۔ جمشید ماما ایک رات کو گھر سے باہر ایک چبوترے پر بیٹھے تھے کہ اُن کو دل کا دورہ پڑا۔ نیچے بارانی خشک کھائی میں گرگئے۔کسی نے دیکھا، تو تب تک وہ انتقال کرگئے تھے۔ اُن کی کمر میں جگہ جگہ انگلیوں کی طرح نیلے نشان تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ ’’بلا‘‘ کی انگلیوں کے نشان ہیں، مگر ڈاکٹروں نے کہا کہ حرکتِ قلب بند ہوتے وقت خون کی روانی جہاں جہاں رُکتی ہے، وہاں ایسے نشان پڑجاتے ہیں۔
میاں جان بھی شاید ریاستی فوج میں ملازم تھے۔ تانگہ بھی چلاتے تھے۔ بعد میں اُنھوں نے ہسپتال کے بالمقابل چائے خانہ کھول دیا تھا۔ اب تو سب کچھ بدل گیا ہے۔یہ کئی منزلہ عمارتیں دوائیوں اور کنجڑوں کی دُکانیں، لیبارٹریاں الم غلم…… میرے بچپن اور جوانی کا اور میرے بچوں کے عہدِ طفولیت کا سیدو کہیں بھی نظر نہیں آتا۔
لوگوں میں ایک عجیب اُنسیت تھی۔خونی رشتوں سے زیادہ اپناپن تھا۔ اس وقت ایک “Hunch Back” (کبڑا) ریڑھی والا یاد آگیا۔ پتا نہیں اس کا کیا نام تھا، سب اُسے ’’چوپال‘‘ کہتے تھے۔ہم افسرآباد سے گاؤں منتقل ہوچکے تھے۔ایک دن بازار میں اس سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ بڑے پیار سے ملے۔ پھر ہمایوں اور اُس کی ایک کزن کا نام لے کر پوچھا۔ جب میں رخصت ہونے لگا، تو نہایت معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ ان بچوں نے ان سے ادھار کچھ چنے وغیرہ کھائے تھے، جس کا کوئی بارہ روپیا بنتا تھا۔ مَیں نے کچھ نوٹ اس کو تھماتے ہوئے کہا: اچھا ہوا، آپ نے مجھے بتایا۔ورنہ وہ شریر تو مجھے کبھی نہ بتاتے۔
اب کچھ ذکر بونیر کا ہوجائے۔
ادغام کے وقت بونیر 7 تحصیلوں پر مشتمل تھا: سلارزی، گدیزی، گاگرہ، چملہ، امازی اور طوطالئی اور چغرزی۔
ان سب تحصیلوں کا کنٹرول ڈگر میں تعینات مشیر صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ اس سے ڈگر کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس طرح کے انتظامی یونٹوں کو ایک ’’حاکم‘‘ کنٹرول کرتا تھا۔ جب کہ ڈگر میں وزیر کے لیول کا رکھنے والا اہل کار ’’مشیر‘‘ کہلاتا تھا۔
ہمارا سب ڈویژن بھی پورے بونیر کے لیے تھا۔سب سے بڑا مسئلہ رہایش کا تھا۔ اے سی ڈگر تو مشیر کی رہایش گاہ میں قیام پذیر ہوا۔ البتہ ڈی ایس پی روز جیپ میں سیدو سے آتا تھا۔ اُس وقت ملک کے حالات بھی دگر گوں تھے۔مارشل لا حکام کے سامنے کوئی واضح لائحۂ عمل تھا، نہ اُن کے پاس پیسہ ہی تھا۔ جب 1971ء کا بحرانی ہنگامہ خیز سال ختم ہوا، تو صوبائی حکومت کو نئے سب ڈویژن بونیر کے لیے ابتدائی طور پر تحصیل ہیڈ کوارٹر کے لیے محدود تعمیری کام کا منصوبہ منظور کرنا پڑا۔
اس کے لیے ’’ڈگر میرہ‘‘ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وسیع و عریض قطعہ، مین روڈ سے کافی اونچائی پر واقع ہے۔ اسے ڈگر پیر بابا روڈ کے نقطۂ آغاز کے ساتھ ایک رابطہ سڑک کے ذریعے ملایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 500× 500 فٹ کا رقبہ منتخب ہوا۔ زمین مناسب قانونی کارروائی کے بعد بی اینڈ آر ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا۔ اس پر تین رہایشی بنگلوں اور دو دفاتر کے تعمیر کا منصوبہ منظور ہوا۔ رہایشی حصے میں اے سی، ای اے سی اور ڈی آیس پی کے لیے بنگلے اور دفاتر اسی ترتیب سے بنانے کا آغاز ہوا۔
عجیب صورتِ حال اُس وقت سامنے آئی جب اے سی نے سوات دَور کی رہایش گاہ میں قیام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شاید سیکورٹی کا مسئلہ تھا،تو اے سی والا بنگلہ کچھ عرصے کے لیے ہم سب انجینئروں کو مل گیا۔ اچانک ڈگر میرہ کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ تورورسک، ایلئی وغیرہ کے صاحبان نے ارد گرد کی زمینیں خرید کر رہایشی کوارٹر بنائے، جن میں دیگر اضلا ع سے آئے ملازمین رہنے لگے۔
پھر کئی سال بعد جب مَیں چترال سے ٹرانسفر ہوکر ڈگر آیا 1993ء میں، تو بونیر ضلع بن چکا تھا۔
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس