کالممیاں افضل شاہ

پی کے اسّی اور انتخابات

ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صوبہ یا مرکز میں حکومت بنائے۔ اس کے حصول کے لئے وہ حد درجہ کوشش کرتی ہے۔ جلسے جلوس میں سچے جھوٹے وعدے کرتی ہے، تا کہ کسی طرح اسمبلی میں پہنچ سکے۔ سوات میں بھی آج کل کچھ اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ الیکشن قریب آتے ہی دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی الیکشن جیتنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات اور بھاگ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سوات میں ہر حلقے کی اپنی اہمیت ہے لیکن پی کے اسّی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے اس حلقہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شانگلہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر امیر مقام بھی اس حلقہ سے 2013ء کا الیکشن لڑچکے ہیں۔ اس حلقہ سے مختلف انتخابات میں مختلف چہروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ اس سے اگرکوئی سیاسی شخص ایم پی اے منتخب ہوتا ہے، تو اگلے الیکشن میں وہ تین سے چار ہزارتک ووٹ لینے میں ہی کامیاب ہوتا ہے۔ پی کے اسّی کے موجودہ ایم پی اے فضل حکیم ہیں جو تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ موصوف گذشتہ عام انتخابات میں 18080 ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقہ سے جماعت اسلامی کے محمد امین 11863 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبرپر رہے تھے جبکہ تیسرے نمبر پر جے یو آئی کے مولانا حجت اللہ نے 9410 ووٹ حاصل کئے تھے۔ مذکورہ حلقہ سے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام نے بھی الیکشن لڑا تھا، جنہوں نے 7044ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2008ء میں منتخب ہونے والے اے این پی کے ایم پی اے واجد علی خان 3275 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مگر اب آنے والے انتخابات میں ایم ایم اے کی بحالی کے بعد پی کے اسّی میں پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہوگا۔ حلقہ سے ایم ایم اے کے متوقع امیدوار جماعت اسلامی کے محمد امین ہیں۔ پی ٹی آئی میں اختلافات کی وجہ سے اب تک کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے پی کے اسّی سے واجد علی خان کو نامزد کیا ہوا ہے۔ مسلم لیگ( ن )نے بھی اس حلقہ سے اب تک کسی کو ٹکٹ نہیں دیا ہے، جس سے کارکنا ن میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ پی پی پی کی سرگرمیاں بھی کافی حد تک بڑھ گئی ہیں، مگر پی پی پی نے بھی اب تک پی کے اسّی سے کسی امیدوارکو نامزد نہیں کیا ہے۔ ایم ایم اے کی بحالی نے سوات کی دیگر سیاسی پارٹیوں میں کافی ہلچل مچادی ہے۔ موجودہ ایم پی اے نے حلقہ کے عوام کی اتنی خدمت نہیں کی ہے اور نہ اتنے ترقیاتی کام ہی کئے ہیں، جس کا انہوں نے الیکشن کے دوران میں وعدہ کیا تھا۔ پچھلے انتخابات کی طرح اس بارپی ٹی آئی کے لئے پی کے اسّی کی سیٹ جیتنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس حلقہ سے 2008ء میں واجد علی خان عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے منتخب ہوئے تھے۔ 2008ء کے انتخابات میں ایم ایم اے نے الیکشن سے با ئیکاٹ کیا تھا۔ پی پی پی سے ریاض احمد ایڈووکیٹ نے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اسی حلقہ سے 2002ء میں ایم ایم اے کی طرف سے محمد امین 15594 ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ پی کے اسّی سے پی پی پی شیر پاؤ کے امیدوار فضل رحمان نونو 5520 ووٹ لے کے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار واجد علی خان 4801 ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ بعد میں واجد علی خان 2008ء کے انتخابات میں پی کے اسّی سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ 2002ء میں ایم ایم کے امیدوار محمد امین 2013ء کے عام انتخابات میں 11863 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے تھے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار شیر افگن خان کاکا نے 1383 ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے 18080 ووٹ لئے تھے۔ مگر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ2018ء میں پی ٹی آئی سونامی والی روایت برقرار رکھ پاتی ہے یا موجودہ چند ایک اہم پارٹیوں کے درمیان ہی مقابلہ ہوگا؟ چلئے، دیکھتے ہیں کہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں