کالممیاں افضل شاہ

پی کے 5ماضی اور حال کا تفصیلی جائزہ

قارئین کرام! سوات کے شہری علاقے پر مشتمل حلقہ پی کے 5 میں انتخابات کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حلقہ سے اس بار پرانے چہروں کے ساتھ ساتھ نئے چہرے بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مذکورہ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہوا ہے۔ حلقہ کی اہمیت کی وجہ سے تمام سیاسی پارٹیوں نے مضبوط امیدواروں کو کھڑا کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے مختلف پارٹیوں کے متعدد ناراض کارکنان آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حوالہ سے سابقہ ایم پی اے فضل حکیم کے محلے سے تین امیدوار اانتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
پی کے 5 میں ایم ایم اے کی طرف سے محمد امین، پی ٹی آئی سے فضل حکیم، اے این پی سے واجد علی خان، پاکستان مسلم لیگ ( ن) سے ارشاد علی، قومی وطن پارٹی سے فضل رحمان نونو، پاکستان پیپلز پارٹی سے شہزادہ میانگل امیر زیب شہریار الیکشن لڑیں گے۔
اس حلقہ سے 2002ء میں محمد امین ایم ایم اے کے ٹکٹ پر 15594 ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی شیرپاؤکے امیدوار فضل رحمان نونو نے 5520 ووٹ حاصل کیا تھا جب کہ تیسرے نمبر پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار واجد علی خان نے 4801 ووٹ حاصل کیا تھا۔ اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے شیر افگن کاکا نے صرف 1383 ووٹ حاصل کیا تھا۔
اسی حلقہ سے 2008ء کے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار واجد علی خان 4900 ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ریاض احمد ایڈووکیٹ نے 3800 ووٹ لیا تھا۔ تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی شیرپاؤ کے امیدوار رفیع الملک نے 3500 ووٹ لیا تھا۔
اس حلقہ سے 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فضل حکیم خان منتخب ہوئے تھے، جنہوں نے 18080ووٹ حاصل کیا تھا۔ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے امیدوار محمد امین ٹھہرے تھے، جنہوں نے 11863 ووٹ حاصل کیا تھا جب کہ تیسرے نمبر پر جے یوآئی (ف) کے امیدوار امولانا حجت اللہ تھے، جنہوں نے9410 ووٹ حاصل کیا تھا۔ اسی حلقہ سے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام نے بھی قسمت آزمائی کی تھی، لیکن وہ صرف 7044ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
قارئین، مذکورہ حلقہ کے عوام نے ہر بار نئے چہروں کو منتخب کیا ہے۔ اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے اندورنی اختلافات کی وجہ سے مخالف امیدواروں کو ظاہری طور پر فائدہ مل رہا ہے۔حلقہ سے بیشتر امیدوار سیٹ جیتنے کے لیے پر امید ہیں لیکن خیال کیا جارہا ہے کہ اس بار اصل مقابلہ سابقہ تین ایم پی ایز محمد امین، فضل حکیم اور واجد علی خان کے درمیان ہوگا۔
جہاں تک فضل حکیم کی بات ہے، تو حلقہ کے عوام ان کی کارکردگی سے قطعاً مطمئن نظر نہیں آرہے۔ اس بار فضل حکیم پچھلے انتخابات کی طرح ’’باآسانی‘‘ جیت نہیں پائیں گے۔ اگر ایم ایم اے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا عمل خوش اسلوبی سے انجام پاگیا اور جے یو آئی کے حصے کا ووٹ بھی محمد امین کو ملا، تو اُن کے لیے سیٹ جیتنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔
اس طرح مذکورہ حلقہ میں اے این پی کی مضبوط پوزیشن سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی اس حلقہ میں بھرپور مقابلہ کے موڈ میں نظر آرہی ہے۔ پارٹی میں نئی شمولیتوں کی وجہ سے پارٹی پوزیشن مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف اگر نظر پیپلز پارٹی پر ڈالی جائے، تو نظریاتی کارکنان کو راضی کرنے سے بھی پی پی پی کے امیدوار اچھے خاصے ووٹ لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
جہاں تک تعلق قومی وطن پارٹی کا ہے، تو اس میں اب شدید اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی پوزیشن انتہائی کمزور ہوگئی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں ’’ن لیگ‘‘ کے کرتا دھرتا شہباز شریف کی جانب سے سوات سے الیکشن لڑنے سے پی کے 5 کے امیدوار ارشاد علی بھی کسی حد تک ووٹ لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اب آتے ہیں حلقہ سے انتخاب میں حصہ لینے والے آزاد امیدواروں کی طرف، جن میں پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن اور رہنما ضیاء اللہ عرف جانان، قومی وطن پارٹی کے سابقہ رہنما شوکت علی اور دیگرشامل ہیں۔ پارٹیوں سے ہٹ کر آزاد امیدواروں کی بات کی جائے، تو ان میں شوکت علی کی پوزیشن سب سے بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ موصوف نے2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں سابقہ ایم پی اسے فضل حکیم کے بھائی خان طوطی کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔
قارئین کرام، یوں تو الیکشن میں امیدواروں کی پوزیشن اور حالات الیکشن سے ایک دن پہلے بھی بدل سکتے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ 26 جولائی کا سورج کس کی جیت کی نوید لے کر طلوع ہوتا ہے اور کسے شکست کا منھ دیکھنا پڑتا ہے؟ اس کے لیے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں