Uncategorized @ur

غریبوں کو جینے کا حق دو!

معاشی طور پر پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے معاشی بحران سے نکلنے، اندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے ماہرینِ اقتصادیات پر مبنی ایک مشاورتی کونسل فوری طور پر تشکیل دی ہوئی ہے، جس کے سربراہ خود وزیراعظم ہیں اور اس کے ’’کو آر ڈی نیٹر‘‘ سابق وزیرِ خزانہ و سابق گورنر اسٹیٹ بینک جناب عشرت حسین صاحب ہیں۔
قارئین کرام! جو نام کونسل اراکین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئے ہوئے ہیں، وہ اعلیٰ پائے کے معیشت دان ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ یہ اراکین صاحبان جلد از جلد ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور وطنِ عزیز ترقی کی جانب رواں دواں ہوجائے گا۔ اب تک پاکستان میں جتنے بھی حکمران آئے ہوئے تھے، وہ سب کے سب وقتی طور پر کام چلاتے تھے۔ قرضوں پر قرضے لیے جاتے تھے، بلکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی سود پر مزید قرضے لیے جاتے تھے۔ ملک کے اندر قرضوں کا تو کوئی شمار نہیں۔ بیرونی قرضے بھی منافع بخش کاموں میں مختلف حکومتوں نے نہیں اٹھائے ہیں، بلکہ غیر منافع بخش اور عیاشی کے کاموں پر انہیں خرچ کیا گیا ہے۔ دنیا میں ڈھیر سارے ممالک قرضے لیتے ہیں، لیکن وہ اپنے ملک کے مفاد میں اور منافع بخش کاموں میں انہیں خرچ کرتے ہیں، اور حاصل ہونے والے منافع سے اپنے قرضوں کی ادائیگی کا سامان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکِ عزیز میں رہنے والے کمر توڑ مہنگائی سے تنگ آگئے ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے، صنعتوں کو ترقی دینے زراعت کو ترقی دینے، جنگلوں میں اضافہ کرنے، ڈیموں کو بنانے، آب پاشی کے نظام کو بہتر کرنے، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نکلنے، گیس کے ذخائر دریافت کرنے، تیل کے مزید کنوؤں کو دریافت کرنے، مواصلات کو بہتر کرنے، تعلیمی نظام کو بہتر کرنے، سیاحت پر توجہ دینے، صحت کو بہتر کرنے اور روزگار کو عام کرنے پر گذشتہ حکومتوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی بلکہ ہر حکومت نے ’’چل چلاؤ‘‘ پالیسی کا سہارا لیا ہے، جس کے نتیجے میں آج ملک تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہے۔ کسی بھی حکومت نے ملکی حقائق کا سامنا نہیں کیا، بلکہ ہر کام ’’ایڈہاک ازم‘‘ پر چلایا ہے۔
قارئین، اب صورت حال یہ ہے کہ غریب کا جینا اس ملک میں حرام ہوگیا ہے۔ دوسری جانب مالدار ترین لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملازم پیشہ لوگوں کی تنخواہوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ کلاس فور کی تنخواہ بہ مشکل 15 ہزار جب کہ ہائی کلاس افسروں کی 50 لاکھ یا اس سے بھی اوپر ہے۔ تنخواہوں میں اس تفاوت کو مٹانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس طرح مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے طلب و رسد کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔ ایکسپورٹ کو بڑھانے اور امپورٹ کو کم کرنے کے لیے تگ ودو کرنا پڑے گی۔ جو لوگ لاکھوں میں تنخواہیں لیتے ہیں، اُن کی اس خطیر رقم کے عوض ڈھیر سارے خاندانوں کی دال روٹی کا بندوبست ہوسکتاہے، لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ جو صنعت کار ہیں، لعل و جوہرات میں کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنی جانب سے ایک پائی بھی ٹیکس نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی مصنوعات پردرج شدہ رقم کے ساتھ ساتھ اس پر لگنے والے ٹیکس کو بھی اپنے صارفین سے وصول کرتے ہیں۔
صحیح معنوں میں زراعت سے کام نہیں لیا جاتا۔ کیوں کہ جاگیردار طبقہ عام آدمی کا استحصال کرنے پر تلا ہوا ہے۔ غرض یہ کہ موجودہ حکمرانوں کو معاشی ابتری کا سامنا ہے۔ اگر وہ بھی گذشتہ حکمرانوں کی طرح ’’ایڈہاک ازم‘‘ پر اُتر آتے ہیں، تو یہ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم ہوگا۔ اس ملک کو ترقی کرنی ہے۔ اس ملک کے عوام کو خوشحال زندگی گزارنی ہے۔ ہمیں بہر صورت اپنا معاشی نظام بہتر کرنا ہوگا۔ غریبوں کو جینے کا حق دینا ہوگا اور مالداروں کو قربانی دینی ہوگی۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں