کالمنیاز احمد خان

آئیں، کیلاش کی سیر کریں!

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے شمال مغربی حصہ میں ضلع چترال 14,850 مربع کلومیٹر پر محیط ایک بڑا ضلع ہے، جس کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 4 لاکھ 47 ہزار 3 سو سے زائد ہے۔ چترال رقبے کے لحاظ سے صوبہ خیبر پختون خوا کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس میں کئی قومیں رہتی ہیں۔ آبادی زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل ہے،مگر یہاں کیلاش نامی قبیلے کے لوگ بھی کئی صدیوں سے آباد ہیں۔ ماضیِ قریب میں ان کی تعداد اچھی خاصی تھی، مگر اس وقت آبادی مسلسل کمی کا شکار ہے۔’’کیلاش‘‘ کو مقامی زبان میں ’’کافر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو مشرف بہ اسلام کرنے میں علاقے کے لوگ بڑی پھرتی دکھا رہے ہیں۔
قارئین، چترال سے 20 کلومیٹر دور آئیون نامی تحصیل کے راستے پر اس وقت کیلاش قبیلے کے تین بڑے گاؤں آباد ہیں، جن میں بمبوریت، ریمبور اور بریر شامل ہیں۔ تینوں گاوؤں میں کل ملاکے 6 ہزار تک کیلاشیوں کی آبادی ہے۔ آئیون نامی گاؤس سے 18 کلومیٹر کے کچے اور انتہائی خراب راستے پر تحصیلِ بمبوریت واقع ہے، جس کا آخری سرا افغانستان کی سرحد پر ختم ہوتا ہے۔ یہ تمام علاقہ بڑے بڑے پہاڑوں پر مشتمل ہے، جن میں خوبصورت وادیاں ہیں۔ ان وادیوں میں کئی گاؤں ہیں جس میں اب زیادہ ترمسلمان بستے ہیں۔ بمبوریت میں کرکال نامی گاؤں کے مکانات زیادہ تر پہاڑیوں میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ گاؤ ں کے 600 سے زائد گھرانے کیلاشی قبیلے پر مشتمل ہیں۔ اس گاؤں میں دیگر کیلاشی قبیلوں کی طرح سالانہ چار تہوار منائے جاتے ہیں، جن میں گرمیوں کا تہوار ’’چلم جوش‘‘ جو کہ مئی میں منایاجاتاہے، کو بہار کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح سردیوں کا تہوار ’’چھوموس‘‘ کہلاتا ہے جو دسمبر میں منایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اگست میں ’’اوچاؤ‘‘ منایا جاتا ہے جو فصل پک جانے کے موقعہ پر منایاجاتاہے۔ اس تہوار کے بعد فصلوں کو کاٹا جاتا ہے اور محفوظ کیا جاتا ہے۔ ’’کلاسرز‘‘ تہوار مارچ کے مہینے منایا جاتا ہے جس میں اچھی فصل کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔
ذکر شدہ ہر فیسٹول کے الگ الگ مقاصد ہوتے ہیں۔ تمام تہواروں کو منانے کے لیے کیلاشی لوگ خصوصی تیاریاں کرتے ہیں۔ ان تہواروں میں شادیاں بھی رچائی جاتی ہیں (ماسوائے ’’کلاسرز‘‘ کے)۔ مقامی لوگوں کے مطابق بڑے اہتمام کے ساتھ ’’چھوموس‘‘ اور ’’چلم جوش‘‘ کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں۔ مجھے چوں کہ ’’چھوموس‘‘ تہوار میں ذاتی طورپر شامل ہونے کا موقع ملا، اس وجہ سے اس کو قریب سے دیکھا۔ دسمبر کی 8 تاریخ تا 22 یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس کے لیے کیلاشی لوگ نئے کپڑے تیار کرواتے ہیں۔ گھروں کو صاف کیا جاتا ہے۔ جانور جن میں زیادہ تر بکریاں ہوتی ہیں، قربانی کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔ آٹھ دسمبر کو صاف کپڑوں میں کیلاشی خواتین، بچے، مرد، بوڑھے علی الصباح گھروں سے نکلتے ہیں اور مختلف میدانوں میں ناچ اور گانوں سے اپنے تہوار کا آغاز کرتے ہیں۔ شروع میں خواتین اور مرد الگ الگ ٹولیوں میں ناچتے گاتے سماں باندھتے ہیں۔ گانوں میں زیادہ تر مہمان نوازی کے قصے ہوتے ہیں۔ اس طرح اپنے اسلاف کی بہادری اور روایات کے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ کیلاشیوں کے مطابق ناچ گانا ان کی عبادت کا حصہ ہے، جس میں وہ دعائیں کرتے ہیں۔ جوں جوں دن گزرتا ہے، ان کے ناچ گانے میں تیزی آتی جاتی ہے۔ ایک مرد، عورتوں کے میدان میں کود کر ناچتے ہوئے عورتوں کو چیلنج کرتا ہے۔ انہیں مختلف اشارے کرتا ہے۔ عورتیں بھی نچلا نہیں بیٹھتیں، وہ بھی ناچ کر ہی جواب دیتی ہیں۔ اس طرح خواتین میں سے بھی ایک مردوں کے درمیان جا کر ناچنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ بھی نوجوانوں کو چیلنج کرتی ہے اور نوجوان بھی بھرپور انداز سے جواب دیتے ہیں۔یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔ دن کے آخری حصے میں سب عورتیں اور مرد اکٹھا ناچ گانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ سورج ڈھلنے کے بعد کم عمر لڑکے اور لڑکیاں میدان میں کود پڑتی ہیں اور اپنے بڑوں کی روایات کو برقرار رکھنے کی سعی کرتی ہیں۔ صبح تا شام اس عمل میں جو خواتین یا مرد تھک جاتے ہیں، وہ پنڈال سے نکل جاتے ہیں۔ اس کی جگہ تازہ دم لوگ لے لیتے ہیں۔ ٹولیوں کی شکل میں بھی ناچ گانا ہوتا ہے۔ تھکنے کی صورت میں گھروں کا رُخ کیا جاتا ہے، کھا پی کر اور تازہ دم ہوکر دوبارہ میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ناچ گانے میں ڈھول اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح نوجوان شرارتیں بھی کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے ماسک چہرے پر لگاتے ہیں، جن میں جانوروں اور مشہور شخصیات کے ماسک شامل ہوتے ہیں۔ نوجوان اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ پہلے اس طرح نہیں ہوتا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے تہواروں میں بھی جدت آتی گئی۔ تہوار کے موقع پر شراب خوب پیا جاتا ہے۔ شراب ان کے مذہب میں ایک مقدس مشروب سمجھی جاتی ہے، مگر اس کو سرِ عام نہیں پیا جاتا۔ اپنے گھر پر یا دوستوں کے ساتھ مخصوص جگہوں میں پی کر باہر ناچ گانے کے لیے خواتین اور مرد نکل آتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہتا ہے۔ 18 دسمبر کو یہ سلسلہ ختم ہوجاتاہے۔ پھر ایک دن آرام اور صفائی کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ 19 تا 22 دسمبر کیلاشی لوگ مسلمانو ں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے ملناجلنا بند کر دیتے ہیں۔ اس طرح اپنے علاقے میں کسی مسلمان کو آنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ اس دوران میں وہ اپنے گھروں میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ پکا اور کچا دنوں قسم کا گوشت آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ جو غریب کیلاشی ہیں، ان کو زیادہ حصہ دیا جاتا ہے۔
22 دسمبر کو سب ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کے خون کو بچوں پر چھڑکتے ہیں، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شیطانی قوتیں ختم ہوجائیں اور ان کے مویشیوں میں برکت ہو، فصل اور مال مویشی زیادہ ہوں۔ 22 دسمبر کی شب کھلے آسمان تلے انتہائی سردی میں ساری رات ناچنے گانے کا عمل ایک بار پھر شروع ہوجاتا ہے،گوشت پکایا جاتا ہے اور شراب پی جاتی ہے۔ اس طرح 23 دسمبر کو ’’چھوموس‘‘ نامی یہ تہوار ختم ہوجاتا ہے۔
کیلاش کی ایک ’’شائرہ‘‘ نامی خاتون (پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری ہولڈر) کے مطابق، کیلاشی پیار و محبت کے قائل ہیں۔ ان کے معاشرہ میں زبردستی نام کی کوئی چیز نہیں۔ زیادہ ترکیلاشی خواتین اپنی مرضی کے مطابق شادیاں کرتی ہیں۔ مذہبی تہواروں کے موقعہ پر لڑکے اور لڑکی کے درمیان دوستی ہوجاتی ہے، اور جب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساری زندگی رہ سکتے ہیں، تو ہی وہ شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ شادی زیادہ ترتہواروں میں ہو جایا کرتی ہے۔ تہوار سے پہلے لڑکا اور لڑکی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ شادی کریں گے، تو اپنے چند خاص دوستوں اور سہیلیوں کو بتایاجاتاہے، جب تہوارجوبن پرہو، تو لڑکی ایک عام سے گاڑی میں خاوند کے دوستوں کے ساتھ ان کے گھر چلی جاتی ہے، جہاں پر ان کی خوب آؤبھگت ہوتی ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کوبھگاکر لایاگیا ہے، مگر یہ غلط ہے۔
’’شائرہ‘‘ کے مطابق وہ لوگ کزن میرج بالکل نہیں کرتے۔ دوردراز کے قبیلوں سے شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔ لڑکی راضی نہ ہو، تو اس کا اپنا باپ، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ کوئی ا س کی شادی نہیں کرا سکتا۔ کیلاشی قبیلے میں خواتین کو زیادہ اختیارحاصل ہے۔ اگرکوئی خاتون اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہیں، تو وہ بغیر وجہ بتائے کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرسکتی ہے۔ اس پر کیلاشی قوانین کے مطابق کوئی قدغن نہیں۔ وہ بااختیار ہوتی ہے۔ یوں کئی شادیاں ایسی بھی ہوچکی ہیں کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کی بیوی کو منتخب کر لیا ہے۔ شادی کے بعد کیلاشی قبیلے کے لوگ مبارک باد دینے کے لیے جاتے ہیں، جن کو موقع کی مناسبت سے کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح شادی شدہ خاتون یالڑکی بعد میں اپنے ماں باپ کے گھر بھی جاتی ہے۔ حسبِ استطاعت والدین ان کو مویشی یا رقم دیا کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں