کالمنیاز احمد خان

آئیں، کیلاش کی سیر کریں

’’چھوموس‘‘ تہوار کے موقعہ پر کیلاش قبیلے کی کئی رسوم دیکھنے کا اتفاق ہوا، جن میں ایک ان کی شادی کی رسم بھی تھی۔ مجھے کیلاشیوں سے معلوم ہوا کہ بمبوریت کرکال کے ایک جوان کی شادی ہے۔ اس کے دوست بارہ کلومیٹر دور ریمبور نامی گاؤں سے لڑکی بیاہ کر لا رہے ہیں، جسے عام طوپر لوگ ’’بھگا کر لانا‘‘ کہتے ہیں۔ اسی اثنا میں چار پانچ موٹرسائیکلوں پر سوار کیلاشی نوجوان شور مچاتے ہوئے گاؤ ں میں داخل ہوگئے، جن کے پیچھے ایک موٹر کار تھی جس میں دلہن تشریف فرما تھی۔ جب وہ گاؤں پہنچ گئے، تو کئی نوجوان اور خواتین ان کو وصول کرنے کے لیے موجود کھڑے تھے۔ بعض نوجوان سڑک پر ناچ رہتے تھے اور ساتھ گانا گا رہے تھے۔ ان کے ساتھ گاؤں کے بڑے بوڑھے بھی شامل تھے۔ جب گاڑی رُکی، تو اس میں سے سادہ اور روایتی لباس میں ایک کیلاشی خاتون باہر نکل آئی۔ دوسری نشست پر شادی کرنے والے نوجوان کے کچھ دوست تھے، وہ باہر آئے۔ جوں ہی دلہن باہر آئی دلہا کی رشتہ دار خواتین نے اُس پر ٹافیاں اور میٹھی گولیاں نچھاور کیں۔ خواتین نے دلہن کو ساتھ لیا۔ اس نے سب کے ساتھ روایتی انداز سے مصافحہ کیا، جس میں پہلے مہمان کو بوسا دیا جاتا ہے۔ پھر مہمان کا ہاتھ چوما جاتا ہے۔ جواباً مہمان بھی میزبان کا ہاتھ چوم لیتاہے۔ یہ عمل ابھی جاری تھا کہ خواتین نے دلہن کو ساتھ لے لیا۔ دلہن شرما بھی رہی تھی۔ اس نے آدھا چہرہ چادرسے چھپا یا ہوا تھا، مگر خوشی اس کے چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ دلہن چنچل اور شوخ کیلاشی لڑکیوں کے درمیان تھی۔ اس کے پیچھے کچھ بڑی عمر والی خواتین تھیں، جو بار بار دلہن پر میٹھی گولیاں اور ٹافیاں نچھاور کر رہی تھیں۔ اس کے پیچھے صاف لباس اور چترالی ٹوپی پہنے ہوئے نوجوان بھی تھے جوناچتے گاتے دلہن کے پیچھے جا رہے تھے۔ راستہ اس طرح سے طے ہوا۔ اس کے بعد دلہن کو ایک عام سے کمرے میں لایا گیا۔ شادی والا نوجوان جس کی عمر بیس پچیس کے لگ بھگ تھی، اس نے بعد میں اپنا نام عرفان بتایا۔ دولہا کے مطابق اس نے تین چار سال قبل دوسرے گاؤں کی ایک کیلاشی لڑکی کو پسند کیا تھا۔ اس کے ساتھ دوستی کرلی اور پھر باہمی رضامندی سے ’’چھوموس‘‘ تہوار میں شادی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس شادی کی خبر لڑکی کی چند سہیلیوں کو تھی۔ اس طرح لڑکے کے کچھ خاص دوستوں کوبھی اس بارے علم تھا، جو اس وقت اس لڑکی کو دُلہن کی شکل میں لانے گئے تھے۔ باقی خاندان والوں کو بھی معلوم تھا کہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھیں گے، مگر اس کی مقرر شدہ تاریخ کا پتا کسی کو نہیں تھا۔ خاندان والوں کو آج ہی معلوم ہواکہ دلہن کو لایا جا رہا ہے۔ شادی والے گھر کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کے لوگ جمع ہوگئے، جن میں زیادہ تراُن کے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے اس موقعہ پر خوب ہلہ گلہ کیا۔ خواتین اور نوجوان لڑکوں نے ناچتے وقت دولہے کو خاصا تنگ کیا، اسے بار بار چھیڑتے رہے اور اپنے انداز سے مبارک باد دیتے رہے۔ دلہن جب گھر میں داخل ہوئی، تو اس کو ایک تکیے پر بٹھایا گیا۔ سب لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوگئے، جس میں اس کی ساس، بڑی نند، سسر اور دوسرے رشتہ دار بھی شامل تھے۔ لڑکی کے لیے روایتی کھانا روٹی اور پنیر لایاگیا۔ اس نے دو تین لقمے کھائے اور اس گھر کو اپنا گھر تسلیم کرلیا۔
قارئین، یہاں ایک لائقِ تحسین بات یہ دیکھنے کو ملی کہ شادی کے موقعہ پر نہ تو بہت بڑا جہیز دیکھنے میں آیا، نہ دلہن نے کسی قسم کا قیمتی زیور ہی پہنا تھا۔ وہ اپنے روایتی لباس میں تھی۔ اس طرح شادی والے گھر میں بھی کچھ خاص انتظام نہیں کیاگیاتھا۔ کسی قسم کی نمود و نمائش نہیں تھی، نہ تحفوں کا تبادلہ ہی تھا۔ دیگر خواتین بھی کچھ خاص بناؤسنگھار کے ساتھ شریک نہیں ہوئی تھیں۔ یہ شادی ایک طرح سے سادگی کا نمونہ تھی۔ البتہ خوشی، ڈھول باجے اور ہلہ گلہ کا خوب انتظام کیا گیا تھا۔
اس موقعہ پر دولہے کے ایک دوست شکیل جو کہ ناچ گانے میں شریک تھا اور کافی خوش دکھائی دے رہا تھا، کے مطابق وہ اپنے دوست کی دلہن کو دور کے گاؤں بریمبورسے لایا ہے۔ ’’اس طرح کی شادی ہماری روایات کا حصہ ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ لڑکی کو بھگا کر لایا گیا ہے۔ شادی لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے ہوتی ہے۔ بعد میں رشتہ دار اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور اس کو مان لیتے ہیں۔ ہمارے قبیلے میں دوردراز کے رشتہ داروں کے ساتھ شادی ہوا کرتی ہے۔ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ شادی جائزنہیں سمجھی جاتی، یعنی تمام چچازاد یا ماموں زاد کے ساتھ ہماری روایات کے مطابق شادی جائز نہیں۔ شادی کی تقریبات کئی دن تک اور بعض اوقات کئی مہینوں تک جاری رہتی ہیں۔ اس موقعہ پر تمام رشتہ داروں اور محلہ داروں کو کھانادیاجاتاہے۔ مبارک با د کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہاں یہ بھی ایک رسم ہے کہ اگر کسی خاتون کو اپنا شوہر پسند نہیں، تو وہ بلاجھجھک دوسرے مرد کے ساتھ دوستی کرکے آنے والے تہوار پر شادی کرسکتی ہے۔‘‘
اس طرح کی ایک مثال ہمیں مل بھی گئی تھی۔ گاؤں کے قاضی کے بیٹے کی بیوی دوسرے گاؤں کے لڑکے کے ساتھ شادی کرکے گھر چھوڑ گئی تھی۔ قاضی وہاں فیصلہ کرنے والا شخص ہوتا ہے۔ اس طرح ایک نوجوان جس نے بھارتی فلموں سے متاثرہوکر لمبے بال رکھے تھے۔ صبح صبح ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی بیوی جوکہ جوان تھی اور دو سال قبل اس کی شادی ہوئی تھی، وہ امید سے بھی تھی۔ وہ لڑکی اپنی خوشی سے ریمبور گاؤں کے ایک جوان کے ساتھ شادی کرکے چلی گئی۔ اس نوجوان کو اس بارے معلوم ہی نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیاکہ اس کی بیوی صبح گئی ہے اور اس کو رات تک معلوم ہوجائے گا۔ اپنے گھروالوں کے توسط سے اس نوجوان کے والد نے بھی ماضی میں اپنے ہی بھائی کی بیوی کے ساتھ شادی کی تھی۔ کیلاش قبیلہ میں اس عمل کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں زبردستی کسی بھی صورت قبول نہیں، سب کے یکساں حقوق ہیں، رشتہ مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ اس طرح کیلاش میں خواتین پر تشدد کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ کسی خاتون نے مرد پر بھی کبھی تشدد نہیں کیا۔ اس حوالہ سے کیلاشی اپنی روایات کا خیال رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں