ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

سرسبز و شاداب پاکستان (آخری حصہ)

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، زراعت ہماری ملکی اکانومی کو ایک بڑی حد تک سہارا دیتی چلی آ رہی ہے۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ حکومت پھر بھی زرعی اجناس کو وافر مقدار میں دوسرے ملکوں سے بر آمد کر رہی ہے۔ حالیہ بحرانی اقدامات کی وجہ سے زراعت زبوں حالی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف روزمرہ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، تو دوسری طرف زرعی زمینوں کو بہ وجوہاتِ بالا مارکیٹوں اور بازاروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس سے ایک طرف اگر ماحولیاتی آلودگی بڑھتی چلی جا رہی ہے، تو دوسری طرف قدرتی طور پر گرمی بڑھنے سے گلیشئرز پگھلتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجوہات جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ سادہ طریقے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب ایک طرف بھٹا خشت اور موٹر گاڑیوں سے نکلتا ہوازہریلا دھواں درختوں، جنگلات، پانی اور ماحولیاتی فضا کو آلودہ کرتا ہے، تو دوسری طرف اس وجہ سے بیماریوں کے مختلف قسم کے امراض کا سبب بھی بن رہاہے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ماحول دوست سر سبز و شاداب پاکستان۔
آپ کو پتا ہے کہ ایک درخت کے اُگانے سے بہت سارے فائدے سمیٹے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ ایک درخت سالانہ 20 ٹن اے سی جتنی ہوا دیتا ہے، تو دوسری طرف ایک سروے کے مطابق ملکی اکانومی کو سالانہ 40000 ڈالر کا فائدہ بھی دیتا ہے۔ جب درخت ہوں گے، تو موسم اچھا ہو گا، جب موسم اچھا ہو گا، تو بارش ہوگی اور جب بارشیں ہوں گی، تو فصل اور درخت لگیں گے اور جب درختوں اُگیں گے تو ماحول اچھا ہوگا۔ جب ماحول اچھا ہوگا، تو صحت مند سوچیں برآمد ہوگی اور جب بہترین سوچیں برآمد ہوں گی، تو ملک ترقی کرے گا۔ جس سے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا اور جب ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا، تو اپنے ملک کے علاوہ ہم دنیا کے دوسرے ممالک کے بھی کام آسکیں گے۔ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ گرین اور سر سبز و شاداب پاکستان کے لیے تمام پاکستانیوں کو کام کرنا چاہیے۔ خصوصاً ماہرین کی آرا سے استفادہ لے کر اس کو قومی صنعت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ٹوورازم اس کی ایک مثال ہے۔
قارئین، درختوں کی کٹائی کی کچھ وجوہات یہ بھی ہوتی ہیں کہ اس جدید زمانے میں بھی بعض علاقوں کو گیس کی فراہمی بحال نہیں ہوتی۔ اس لیے باامر مجبوری لوگ سستی سوختنی لکڑی اور درختوں کو جلاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں کو گیس کی بحالی یقینی بنائی جائے۔ تاہم اس کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہئیں، تاکہ کسی طرح بھی گھروں کی تعمیر اور اس جیسے امور میں لکڑی کے استعمال کو کم سے کم کیا جاسکے۔ پھل، پھول، پودے اور درختوں کے فارموں کی حوصلہ افزائی سے بھی اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ نیز الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آگاہی مہم سے عوام میں جذبہ اور شوق کے بیج بوئے جا سکتے ہیں۔ عوام کی بلاواسطہ شرکت کے بغیر یہ مذکورہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ سادہ سی بات ہے کہ عوام کی حوصلہ افزائی اور اس کی شرکت کو یقینی بنایا جانا اہم امور میں سے ہے۔ کسان اور دہقان کو حکومتی سبسڈی ملنا اور باغات لگانے والوں کی ستائش کرنا اور ان کو حکومتی انعام و اکرام سے نوازنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ عالمی برادری اور غیر حکومتی تنظیموں کی امداد کے بغیر یہ منصوبے قابلِ عمل نہیں ہوسکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں، مدرسوں، مساجد، پارلیمنٹ، بازاروں، چوکوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایسی ضروری اور اہم مسائل پر عوام کی آگاہی کے لیے مناسب منصوبے اور قابلِ عمل پروگرامات لائے جانے چاہئیں۔ لوگوں میں پھل، پھول، پودے، درختوں اور جنگلات کے متعلق احساس ابھارا جانا چاہیے۔ خاص کر تدریسی نصاب میں ماحول دوست جنگلات کے تحفظ اور اور درختوں کو لگانے جیسے اقدامات کے لیے مضامین کی ضرورت پہلے سے زیادہ موجود ہے۔ حکومتی ریگولیٹری باڈی بھی اس کار خیر میں نمایاں کردار سرانجام دے سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں