کالمنیاز احمد خان

بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل

پاکستان کے محکمۂ شماریات کے مطابق 2017ء کی مردم شماری میں ملک کی کل آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ سالانہ 2.4 فی صد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ محکمۂ شماریات میں صوبو ں کے لحاظ سے اوسط سالانہ اضافہ میں بلوچستان سب سے آگے ہے، جو 3.71 ہے۔ اس کی کی کل آبادی 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد ہے۔ دوسرے نمبر پر خیبر پختون خوا 2.89 کے اضافہ کے ساتھ 3 کروڑ سے زائد ہے۔ سندھ 2.41 کے حساب سے 4 کروڑ 80 لاکھ سے زائد جب کہ پنجاب .13 2 کے حساب سے چھوتے نمبر پر مگر آبادی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر یعنی یہاں 11 کروڑ سے زائد افراد بستے ہیں۔
’’پاکستان پاپولیشن کونسل‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر 1 منٹ میں 1 بچہ پیدا ہوتاہے۔ گویا 24 گھنٹوں میں 1400 سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں۔اس وقت پاکستان دنیا میںآبادی کے لحاظ سے بڑھنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان آبادی سے تیزی سے بڑھنے والا واحد ملک ہے جس میں ہرسال 3.6 کے حساب سے اضافہ ہوتاہے جب کہ سعودی عرب میں یہ اضافہ 2.7 ہے۔ انڈونیشیا میں 2.5 ہے۔ انڈیا میں 2.4، بنگلہ دیش میں 2.2 جب کہ سب سے کم ہمسایہ ملک ایران میں ہے یعنی 1.8۔
قارئین، ان سب باتوں کا مقصد یہ ہے کہ آبادی میں اضافہ کا مطلب وسائل میں کمی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان ترقی کے لحاظ سے مذکورہ تمام ممالک سے بہتر ہے، اور ہر سال خوراک، طبی، تعلیمی سہولیات اور روزگار اپنے عوام کو دینے میں بہتر ہے، مگر بڑھتی ہوئی آبادی اس ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہرسال زچگی کے دوران میں 12 ہزار خواتین جان کی بازی ہار جاتی ہیں جب کہ خیبر پختون خوا میں ہر ایک لاکھ زچگی میں 1700 خواتین موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔ اس طرح پاکستان سالانہ زیادہ مائیں زچگی کے دوران میں موت کی آغوش میں دینے والا بارہواں بڑا ملک ہے۔
قارئین، اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پاکستان میں 1 کروڑ 60 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پچھلی مرد م شماری میں خیبر پختون خوا کی آبادی 3 کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ جوکہ محکمۂ شماریات کے لیے حیران کن ہے۔ اوسطاً خیبر پختون خوا کی ہر خاتون کے حصے میں چار بچے آتے ہیں۔ اس طرح پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں 53 ایک سال کے اندر مرتے ہیں، جب کہ پیدا ہونے والے 22 فیصد بچے پانچ سال کی عمرتک غذائیت کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ اعداد وشمارکے مطابق ہر ماں ایک بچہ غیر ارادی طورپر پیدا کرتی ہے۔ مطلب، اگران کو مانع حمل کی سہولیات دی جائیں، تو اس میں ایک فیصد کمی ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اس وقت خیبر پختون خوا میں 30 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ان کو مناسب تعلیم، خوراک اور بنیادی سہولیات میسرنہیں۔ خیبر پختون خوا میں 89 فی صد خواتین معاوضہ پر کام نہیں کرتیں۔ گویا ان کو ترقی کی دوڑ سے دور رکھا گیا ہے۔
پاکستان ان ممالک میں سرِفہرست جہاں پر پانی کی انتہائی کمی ہے۔ 1951ء میں آبادی کی کمی کی وجہ سے فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا،جب کہ2017ء میں یہ کم ہوکر فی کس 860 مکعب ہوکر رہ گیاہے۔ ماہرین کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی اپنی موجودہ رفتار سے کم یعنی 2 فی صد کے اضافہ سے جاری رہی، تو 2040ء تک مزید 12کروڑ نوکریوں، 1 کروڑ 90 لاکھ گھروں اور 85 ہزار پرائمری سکولوں کی ضرورت ہوگی۔
اس طرح خیبر پختون خوا میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مزید 23 لاکھ گھروں، 1 کروڑ 85 لاکھ نوکریوں اور مزید 14 ہزار پرائمری سکولوں کی اگلے بیس سالوں میں ضرورت ہوگی۔ اس وقت خیبر پختون خوا میں 5 سے 16 سال کی عمرکے بچوں میں ہر تیسرا بچہ سکول سے باہرہے، جن میں لڑکوں کا حصہ 17 فی صد جب کہ لڑکیوں کا 40 فی صد ہے۔ پاکستان میں عموماً اور خیبر پختون خوا میں خصوصا آبادی بڑی تیزی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر مانع حمل کے طریقوں کو استعمال کیاجائے، تو اس سے ماؤں کی زندگی کی موجودہ شرح 28 فی صد سے بڑھ کر 54 ہوجائے گی۔ گویا ہر 1 لاکھ خواتین میں 600 خواتین کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔ اس طرح بچوں کی زندگی میں اضافہ ہو کر 16 ہزار00 7 بچوں کی زندگی بچ جائے گی۔
قارئین، ان سب اعداد وشمار سے ہٹ کر آبادی میں تیزی سے اضافہ کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہونا ہے، جس کی وجہ وسائل پر ناقابلِ برداشت دباؤ اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن ہے۔ اس کا آسان مطلب غیر معیاری زندگی گزارنا ہے۔ سہولیات کی عدم دستیابی سے معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں، بیماریاں اور تکالیف بڑھ جاتی ہیں۔ علمائے کرام اور تمام اسلامی ممالک بشمول سعوی عرب، ایران، بنگلہ دیش سب اس بات پرمتفق ہیں کہ بہتر زندگی گزارنے کے لیے اعتدال اور مناسب منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اللہ تعالی تما م انسانوں کو رزق دیتا ہے، مگر اس کے لیے وسائل پیدا کرناانسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے لیے معاشرے میں آگاہی، تعلیم اور سب سے بڑھ کر حکومت کی طرف سے مناسب خدمات فراہم کرناضروری ہے۔ تبھی پاکستان کے لوگ ایک خوشحال اور مستقبل کے لیے محفوظ پاکستان اپنے آنے والوں نسلوں کو دے سکیں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں