ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

پی ٹی ایم کے مطالبات ٹھیک، لہجہ ٹھیک نہیں

قارئین، کتنی بے حسی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم مطالبات کو ٹھیک تسلیم کر رہا ہے ، لیکن اس کو تکلیف لہجہ سے ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مطالبات جینوین ہیں، تو ان کو حل کرنے کے لیے ریاست کیوں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ؟ کیوں سادہ سے مطالبات کے حل کرنے کے عمل کو طول دیا جا رہا ہے ؟ پی ٹی ایم کا سلوگن کُھبے گا، جب ریاست مبنی بر حق مطالبات کو پیچھے دکھیلے گی۔ کیا یہ لاکھوں پختون نوجوان اس ملک کے شہری نہیں، ان کے آئینی اور قانونی حقوق کالعدم ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ یہ دوسرے درجہ کے شہری ہیں اور ان کو آزدیِ اظہار کی اجازت نہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں، تو ہوجاتے ہیں بدنام
یہاں تو قتل پر قتل کیے جاتے ہیں اور اس کا چرچا تک نہیں ہوتا۔ کوئی آپ کو مارے ، قتل کرے ، لاپتا کرے ، آپ کے گھر کو مورچہ بنائے ، آپ کے گھر کو مسمار کرے ، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرے اور اس کے جواب میں صرف ایک کیوں؟ کی آواز اٹھائی جائے ، تو الٹا آنتیں گلے پڑتی ہیں کہ لہجہ ٹھیک نہیں۔ اب بندہ لہو کے گھونٹ پی کے نہ رہے ، تو کیا کرے !
وزیر اعظم موصوف آگے فرماتے ہیں کہ آرمی کو ڈپلائی سویلین حکومت نے کیا تھا، انہی سے اِس بابت پوچھا جائے ۔ تو خاں صاحب، کیا آپ کے پاس پچھلے سات آٹھ مہینوں سے سویلین حکومت نہیں ہے ؟ آپ نے اس مسئلے کے حل کے لیے کون سے ٹھوس اقدامات کیے ہیں؟ جواب دینا پسند فرمائیں گے ؟ آپ مزید فرماتے ہیں کہ مَیں نے بھی اس مسئلے کی نشان دہی پچھلے دس سالوں میں کی ہے ۔ بات گھما پھرا کر آپ اُن بے یار و مددگار لوگوں کے دُکھوں کا مداوا کس طرح کرسکتے ہیں؟ کیا آپ نے سوچا ہے کہ صرف بات کرنے سے معاملات حل نہیں ہوا کرتے ؟ بتائیں کہ آپ صرف زبانی کلام پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا اقدامات کرنے کا اختیار اب آپ کے پاس نہیں رہا؟ کیا وزیر ستان کے لوگوں کے جائز قانونی حقوق کو پاؤں تلے روندھا جائے ؟ خاں صاحب، یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کے جوابات لوگ جاننا چاہتے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ پچھلے بیس سالوں سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس کی تفصیل آئندہ نسلوں کا ہمارے اوپر قرض تصور ہوگی۔ امریکہ نے طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کی خاطر افغانستان حکومت پر حملہ کیا۔ پاکستان نے اڈے ، فضائی، بری اور بحری راستے دے کر ناقابلِ ذکر امور، امداد اور قربانیاں دیں۔ مختصر یہ کہ افغانستان کو پتھر کے دور میں لے جایا گیا۔ آج وہی امریکہ اپنی بنائی ہوئی افغان حکومت کو چھوڑ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے اس کی گود میں بیٹھ گیا ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل ڈھونڈھنا چاہتا ہے ۔ مذکورہ جنگوں کی وجہ سے سرحد کے اِس پار بھی طالبان مجاہدین کی تحاریک نے جنم لیا۔ کیا یہ وہ وقت نہیں کہ ان طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جائیں؟ خیبر پختون خوا میں جاری شورش کو آخر کس وقت اختتام پذیر کیا جائے گا؟ امریکہ تو بہرحال اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ نکال لے گا۔ اگر حل نہ نکلا، تو بہانہ بنا کر روس امریکہ سرد جنگ ختم ہوجانے کے بعد کی طرح ایک بار پھر دبے پاؤں اس خطہ سے نکل جائے گا۔
قارئین، پاکستان کو آزادی ملنے کے بعد سے اب تک یہاں شورش، بدامنی اور جنگی فضا ہی پنپتی جا رہی ہے ۔ اس میں کس کا نقصان اور کس کا فائدہ، یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ کیسے حب الوطنی، اسلام کو خطرہ ہے اور قومیت جیسے نعروں پر جنگیں بپا کی جاتی رہی ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ پرائی جنگ میں کس کا نقصان زیادہ ہوا؟ افسوس اس ضمن میں مذہب کو استعمال کیا گیا، جس سے مذہب بیزاری کے اثرات معاشرے میں نفوذ کر گئے ۔ معاش، اقتصاد اور امن و امان سب کچھ تباہی و بربادی سے دوچار ہوا۔ سکول، کالج اور مواصلاتی نظام پسماندہ اور ناکارہ ہوگیا۔ خیبر پختونخوا کے حصے کی معیشت دوسرے صوبوں اور ممالک میں منتقل ہوئی۔ نئے حکومتی منصوبے اس بیلٹ کے لیے ناپید ہیں۔ یہاں پر عام لوگوں کے علاوہ پولیس، وکیل، ڈاکٹر اور ججوں تک کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ دو دو نظام اس بیلٹ کے باسیوں کا مقدر بن گئے ہیں۔ اب جب ان مسائل کے حل کی آواز کوئی اٹھاتا ہے ، تو وہ غدار ٹھہرتا ہے ، اور ان کا باقاعدہ طور پر میڈیا بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ صاحب پختونخوا کہتا ہے کہ پختونوں کے نام پر چیخنے چلانے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تو صاحب ان کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے کیا ان پر مزید تباہی و بربادی لانا مقصود ہے ؟ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ اپنی مسائل کی نشان دہی کریں؟
قارئین، میں سمجھتا ہوں کہ پختونوں کے وطن میں پختونوں ہی کے مسائل کی باتیں کی جانی چاہئیں۔ یہاں پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مسئلوں کی باتیں اور حقوق کا راگ الاپنا کسی طور زیب نہیں دیتا۔ کیوں کہ وہ باتیں تب ہی کی جاسکتی ہیں جب آپ کا اپنا گھر ٹھیک ہو، آپ کی اپنی برادری برسرِ روزگار ہو۔ یہ تو سائے سے گلوخلاصی کی خاطر روشنی ہی کو ختم کرنے والی بات ہوئی۔
ہوش کے ناخن لیے جائیں اور انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جائیں۔ ایک طرف جرگے ، سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی میں بریفنگ کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اور دوسری طرف بے بنیاد پروپیگنڈے کیے جا رہے ہیں، کیا یہ ہیں آپ کے مذاکرات کے آداب؟
قارئین، میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس ملکِ خداداد میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی، تو ہم پاکستان کے اہداف اور منزل کا تعین بھی باآسانی کرسکیں گے ۔ بے چینی اور بدامنی میں ممالک ترقی نہیں کیا کرتے ۔ میرا مشورہ ہے کہ تحریک کے خلاف پروپیگنڈے بند کیے جائیں، اور اس کے جائز مطالبات کو مان لیا جائے ۔ کسی کی کردار کشی سے بہتر ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں، کہ اس میں سب کا بھلا ہے !

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں