ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

غریب کو نہیں، غربت کو ختم کریں

جہاں تک میرا خیال ہے، غریب اس ملک میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ کسی کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ روز بروز امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ روزی روٹی خریدنے کی سکت ختم ہوچکی ہے۔ روزگار ناپید ہوچکا ہے۔ لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ترقی اور ٹیکنالوجی نے رہی سہی کسر نکال پورا کردی ہے۔ اب انسانوں کی بجائے مشین کام کرتے ہیں۔ غریب کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ گھر میں روٹی ہے اور نہ بچوں کے اخراجات کو پورا کرنے کا کوئی وسیلہ۔ فقر و فاقہ غریبوں کا مقدر ٹھہر چکا ہے۔ صحت اور تعلیم تو پہلے ہی میسر نہیں۔ اب رزق اور روزگار چھیننے کا پروگرام کیا جا رہا ہے۔ خالی وعدے وعید اس سے پہلے بھی کیے جاچکے ہیں، اور اب بھی کیے جا رہے ہیں۔ یہ ہر گز انصاف نہیں کہ آپ عوام پر مزید بوجھ ڈال دیں۔
ان حالات میں عوام کا کوئی پوچھنے والا، خیال رکھنے والا نہیں۔ عوام کا پیسہ نہ لوٹا جاتا، تو شائد اس کچھ خاص حصے کے لوگوں کو آسانی میسر ہوجاتی۔ احساس اور صحت انصاف پروگرام سے کتنے کو انصاف کے ساتھ مدد دی گئی؟ شائد دس بیس یا تیس لاکھ عوام مستفید ہوئے ہوں گے۔ باقی بائیس کروڑ کا کیا بنے گا؟ عوام پر ٹیکسوں کا بالواسطہ بوجھ لاد دیا گیا۔ ہر چیز پر ٹیکس لگا ہوا ہے۔ سرمایہ دار غلط اعداد و شمار اور بیوروکریسی کی مدد سے چیزوں کو کم کر دیتے ہیں۔ ٹیکس کم دیے جاتے ہیں۔ قیمت مگر وہی لی جاتی ہے۔ کس کی جیبیں بھری جاتی ہیں، ہم سب کو پتا ہے۔ کس کے پیٹ کو کاٹا جاتا ہے۔ یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ متوسط طبقہ تاریخی طور پر منظر سے ہٹنے کے لیے تیار ہے۔ اب صرف دو ہی طبقے بچے ہیں، ایک مال دار، سرمایہ دار اور دوسرا غریب طبقہ۔
دراصل حکمران اور بیوروکریسی اس ملک کی معیشت کی ناکامی کا ذمہ دار ہے۔سرمایہ داروں کو تحفظ دینے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ عدالتوں میں اس کے ساتھ امتیازی رویہ اپنایا جاتا ہے۔ حتی کہ جیلوں میں مکمل سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک روٹی کے چور پر زمین اور آسمان تنگ کردیا جاتا ہے۔ اس لیے چار و ناچار حکمران اشرافیہ کا مانا جاتا ہے۔ پر غریب شہریوں کی دادرسی شاذ ونادر ہی کی جاتی ہوگی۔ ایسے میں ہڑتال بعض لوگ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کرتے ہیں۔ ایک طرف عوام سے ہر چیز پر ٹیکسز بالواسطہ اور بلاواسطہ لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جان و مال کا تحفظ نہیں۔ ملک میں بے چینی کا دور دورہ ہے۔ مزید ابتری کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس مد میں اشرافیہ سے ٹیکسز لینے کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹیکسز بھی خاص قسم کے لوگوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے لِیے جاتے ہیں۔
حالیہ مہنگائی کے خلاف تاجر برادری کی پورے ملک میں ہڑتال عوام کا حکومت کے خلاف ایک قسم کا عدم اعتماد ہے۔ تاجروں نے پورے ملک میں شٹر بند کرکے کاروبار بند کیے رکھا۔ ریلیاں نکالی گئیں۔ عوام سڑکوں پر فریاد لے کر بیٹھ گئے۔ وکلا کنونشن ہوا۔ قراردادیں منظور کی گئیں۔ مزید ہڑتالوں اور احتجاج کے لیے منصوبے بنائے گئے۔
قارئین، مَیں سمجھتا ہوں حکومت کو خود کو سنبھالنا ہوگا۔ اگر ایسے بد تر حالات مزید چلتے ہیں، تو حکومت کرنا مشکل لگتا ہے۔ بجلی اور گیس کو تاریخی طور پر مہنگا کردیا گیا۔ پٹرول اور ڈالر کا کوئی بندہ پوچھے ہی نہیں۔ شائد اس طرح کی کوئی چیز نہیں جس کو مہنگا نہ کیا گیا ہو۔ حکومت نے جو وعدے کیے، اس کے برعکس کام کیا جا رہا ہے۔ اب حکومت کو ہوش آنا چاہیے۔ روٹی کو مہنگا کرنے سے رہی سہی عزت خاک میں مل سکتی ہے۔
حکومت اس لیے ٹیکس لیتی ہے، تاکہ اداروں اور ملک کو چلایا جاسکے، لیکن نہیں عوامی پیسوں کو عیاشی میں اڑایا جاتا ہے۔ تنخواہیں اور مراعات کس کو ملتے ہیں؟ سب کو پتا ہے۔ یہ مراعات اس لیے لِیے جاتے ہیں، تاکہ عوام کی خدمت کی جاسکے۔ لیکن ہوتا اس کے برعکس ہی ہے۔
دوسری طرف عوام کا پیسا عوام پر نہیں لگایا جاتا۔ سرکاری افسران اجلاسوں میں مصروف ہوکر فائل فائل کا کھیل کھیلتے ہیں۔ عوام دفتروں کے سامنے ڈیرے ڈال کر رُلتے رہتے ہیں۔ پیچیدہ اور مہنگے انصاف نے عوام کو عدالتوں سے بدظن کردیا ہے۔ مجبوری اور تنگ دستی نے ہر جگہ ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ نا امیدی مزید نا امیدی میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بس کسی طرح حکومت کو چلانے کے لیے قرضے لیے جائیں۔ تنخواہیں اور مراعات لینا صرف مراعات یافتہ طبقے کا کام ہوتا ہے۔ بائیس کروڑ بلڈی سویلین جائیں بھاڑ میں۔ بس صرف ملک کے نظریاتی سرحدات کا دفاع مقصود ہے۔
جناب والا، کیا انصاف عدالتیں فراہم کرتی ہیں، یا اس میں صرف پیسے والوں کا بھرم اور خیال رکھا جاتا ہے اور غریبوں کو الٹا لٹکایا جاتا ہے؟ کیا ہسپتال اور عدالتیں، تھانہ کچہری صرف مال داروں کے لیے بنی ہیں؟ غریب کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دادرسی کرسکے۔ کوئی جج صواب دیدی اختیارات لے کر غربت کے خاتمے کا اعلان کرے۔ مانتا ہوں مزائل اور توپیں ملک کی ضرورت ہیں، تاہم اس کے لیے غریبوں پر بوجھ ڈالنا اور ان کی غربت کا مضحکہ اُڑانا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا سبھی لوگ اپنے ملک میں مزدوری کرکے کماتے ہیں؟ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔ یہاں ایک کماتا اور باقی سب کھاتے ہیں۔ غربت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ غریب عوام پر ٹیکسز کو ختم کرکے زکوٰۃ کو سرمایہ داروں اور صاحب نصاب سے لے کر قومی خزانے میں جمع کیا جائے۔ تمام بڑے نوٹوں کو ختم کرکے چھوٹے نوٹوں کو رواج دیا جائے، تاکہ کرپشن کا سد باب ہوسکے۔ غذائی اجناس کی فراہمی اور ان کی قیمتوں کو منصوبہ بندی سے کنٹرول کرکے ترسیل یقینی بنائی جائے۔ غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے یوٹیلیٹی سٹور جیسی سہولت متعارف کراکے غریبوں کی گریڈنگ کرکے مناسب قیمتوں پر اشیائے خور و نوش فراہم کی جائیں۔ ان پر سبسڈی دی جائے۔ غربت کو ختم کرنے کے لیے آسان شرائط پر حکومت غریبوں کا سہارا بنے اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کے لیے بلا سود قرضے اور کاروبار دیا جانا چاہیے۔ تمام سرکاری افسروں کی تنخواہوں کو ایک خاص شرح پر لایا جائے، اور بچت کیے ہوئے پیسوں کو غریبوں میں بانٹا جائے۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب ریاست مال وجان، امن وامان، روزگار، چھت، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات اپنے سر لیتی ہے، تو اس وقت عوام کو اپنی دیگر خواہشات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تمام ضروری اشیا پر زکوۃ لاگو کیا جائے اور اس کو قومی خزانے میں جمع کیا جائے۔ٹیکسز کے قوانین کو اپڈیٹ کیا جائے اور غریبوں کو اس نیٹ سے باہر لایا جائے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں