امجدعلی سحابؔکالم

پنجتار، باکو خان کی اولاد کا مسکن

مَیں تیسری دفعہ رانی گٹ کے آثارِ قدیمہ کی سیر کے لیے محوِ سفر تھا۔ اب کی بار ”فلک سیر ٹریکنگ کلب“ کے چودہ ممبران مذکورہ تاریخی آثار دیکھنے کا قصد کرچکے تھے۔ ہائی ایس گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ تین گھنٹے مسلسل سفر کرنے کے بعد پنجتار کے مقام پر ڈرائیور کو رُکنے کے لیے کہا گیا۔ سڑک کنارے ہمارے قدم جس سرزمین پر پڑے، وہ ایک تاریخی گاؤں ”پنجتار“ کہلاتی ہے۔ نام عجیب سا تھا، اس لیے مجھے اس کی وجہئ تسمیہ کے حوالہ سے کرید ہوئی۔ اس موقعہ پر سفر میں راہنما کا کردار ادا کرنے والے حیدر علی اخوند خیل سے پنجتار کے بارے میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ موصوف حیدر علی اخوند خیل تین کتب کے مصنف ہیں اور موضع پیر بابا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری ان کے ساتھ گاڑھی چھنتی ہے۔موصوف کے مطابق: ”پنجتار کے حوالہ سے دو روایات مشہور ہیں۔ پہلی روایت کے مطابق کسی زمانے میں مذکورہ گاؤں دیگر پانچ گاوؤں (غورغشتو، طوطالئی، سواوئی، خالی کلے اور ڈاگئی) کی راجدھانی رہا ہے، اس لیے اسے پنجتار کہتے ہیں۔ دوسری روایت کے مطابق اس علاقہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پانچ راستے تھے، جس کی وجہ سے اس کا نام پنجتار پڑا۔“
مگر حیدر علی اخوند خیل ہی کی ایک تصنیف ”بونیر خدوخیل، تاریخی، تحقیقی اور ثقافتی جائزہ“ کے صفحہ نمبر 214 پر تیسری وجہ بھی رقم ملتی ہے، ملاحظہ ہو: ”بعض دانشور ماضی میں یہاں لڑی جانے والی پانچ مشہور جنگوں کو ’پنجتار‘ کی وجہئ تسمیہ ٹھہراتے ہیں۔“
گاؤں کے قبلہ رُو ایک پہاڑ ایستادہ ہے جس کو ”کوہِ برمان“ پکارا جاتا ہے۔ مقامی طور پر اسے”برامان“ کہتے ہیں جب کہ برادرم حیدری علی کے بقول یہ لفظ ہندو مت کے تری مورتی کا پہلا جزو ”برہما“ یا ”براہما“ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ انگریز کے دور میں گاؤں پنج تار کو کئی بار مسمار کیا جاچکا ہے۔ کوہِ برمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حیدر علی اخوندخیل کا کہنا تھا کہ یہی وہ پہاڑ ہے جس کے اُوپر انگریز نے اپنی توپیں رکھیں اور گاؤں کو نشانہ بنایا۔ انگریز نے اس گاؤں (پنجتار) کو صفحہئ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ کتاب ”بونیر خدوخیل، تاریخی، تحقیقی اور ثقافتی جائزہ“ کے صفحہ نمبر 166 پر اس واقعہ کے بارے میں کچھ یوں درج ہے: ”ایک بڑے توپ خانے کو، جو کہ ہاتھی پر لادا گیا تھا، جنجوعہ نامی مقام پر کھڑا کر دیا گیا۔ جب کہ چھوٹے چھوٹے توپ خانوں کو پنجتار کے قریب برمان نامی پہاڑی کی چوٹی پر نصب کیا گیا۔ پہلے ہاتھیوں کی مدد سے آبادی کو روند ڈالا گیا اور پھر برمان پہاڑی سے توپوں کے گولوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ مقرب خان پہلے ہی سے چنگلئی میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ پنجتار کی آبادی کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی لیکن انگریز کی مراد بھر نہ آئی، کیوں کہ مقرب خان پہلے ہی سے پنجتار خالی کرچکا تھا۔“
کتاب میں اس حملہ کی تاریخ 22 اپریل 1858ء درج ہے۔
برادرم حیدری علی کے مطابق جب سید احمد بریلوی موضع نوشہرہ گئے، تو انہوں نے وہاں سے اپنی مہم جوئی کا آغاز کرنا چاہا، لیکن نوشہرہ کا علاقہ ان کے لیے دفاعی لحاظ سے اتنا مضبوط نہیں تھا۔ اس موقعہ پر پنجتار سے بابا فتح خان نے انہیں دعوت دی اور کہا کہ پنجتار ہر لحاظ سے آپ کے لیے محفوظ و مامون ہے۔ فتح خان بابا نے یہ بھی کہا کہ ”اہلِ پنجتار آپ کے دست و بازو بنیں گے۔“ سید صاحب نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بابا فتح خان کی دعوت قبول کی اور پنجتار سے اپنی مہم جوئی کا آغاز کیا۔ پنجتار نہ صرف سید صاحب اور ان کی فوج کا مسکن بنا بلکہ یہاں بارود کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا۔ گاؤں کے سامنے موجود ”سنگ بھٹی“ ایک طرح سے سید صاحب کی فوجی تربیت گاہ تھی۔ پنجتار میں سید صاحب نے اپنے لیے باقاعدہ طور پر ایک مورچہ تعمیر کیا تھا، جس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ انہوں نے یہاں ایک مسجد بھی تعمیر کی تھی۔ مسجد تھوڑے سے تعمیری کام کے بعد آج بھی اسی شان سے کھڑی ہے۔ سید صاحب نے اس گاؤں میں چار سال تک قیام کیا۔
اگر پنجتار کے فتح خان سکھ راج کے خلاف کوہِ گراں ثابت ہوئے، تو ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے مقرب خان اپنے والدِ بزرگوار کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انگریزوں کے خلاف سینہ تان کر کھڑے رہے۔ برادرم حیدر علی کہتے ہیں کہ انہیں اپنی جرأت و شجاعت کی وجہ سے انگریزوں نے ’’شیر کا بچہ“ لقب دیا۔
کہا جاتا ہے کہ مقرب خان انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور انہیں غاصب تصور کرتے تھے۔ حیدر علی کے بقول ”ایک دفعہ انگریزوں کا ایک وفد پنجتار صرف مقرب خان کو ایک نظر دیکھنے کی خاطر آیا۔ وفد کا کہنا تھا کہ ہم مقرب خان سے ملنا چاہتے ہیں، اسے دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے، جو انگریز جیسی طاقت کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ اُس وقت چوں کہ مقرب خان ضعیف العمر تھے۔ جیسے ہی انہیں چارپائی کے سہارے وفد کے سامنے لایا گیا، تو انہوں نے اپنا رُخِ دوسری طرف پھیر دیا اور کہا کہ جس طرح جوانی میں فرنگی کی صورت سے نفرت تھی، ٹھیک اِس وقت بھی مَیں ان کی شکل دیکھنا نہیں چاہوں گا۔
گاؤں پنجتار، قائدِ یوسف زئی باکو خان (کچھ جگہوں پر یہ نام ”بہاکو خان“ بھی رقم ہے) کی اولاد کا آباد کردہ ہے۔ باکو خان کی پیدائش کے حوالہ سے حیدر علی اخوند خیل اپنی کتاب ”ضلع بونیر کی وادیاں“ کے صفحہ نمبر 587 پر الہ بخش کو کوٹ کرتے ہوئے درج کرتے ہیں: ”بہاکو خان نے اپنی زندگی کی ابتدا عہدِ جہانگیری میں کی تھی۔“
اسی کتاب کے صفحہ نمبر 594 پر موصوف مزید رقم کرتے ہیں: ”باکو خان نے باقاعدگی سے تقریباً 15 سال تک یوسف زئیوں کی قیادت کی۔ 1000 ہجری کے لگ بھگ اکبر کے آخری دور میں آنکھ کھولی اور دورِ اورنگزیب میں 1659ء بمطابق 1070 ہجری میں تقریباً 70 سال کی عمر میں اس دارِ فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ گئے۔“
کتاب ”ضلع بونیر کی وادیاں“ کے صفحہ نمبر 591 پر باکو خان کے مفتوحہ علاقوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کے اقتدار میں تقریباً وہ سارے علاقے (باجوڑ سوات کو ملا کر دو آبہ اشنغر اور چھچھ ہزارہ تک) شامل تھے، جو گجو خان کے دور میں بھی شامل تھے۔
آج بھی گاؤں پنجتار کی تاریخی حیثیت قائم ہے۔ حیدرعلی کے مطابق، اسی مٹی کے فرزند بحرہ مند خان (جو باکو خان کی اولاد میں سے ہیں) نے روشن خان کو پشتونوں کی تاریخ رقم کرنے میں وقتاً فوقتاً مواد مہیا کیا اور اس کے شابہ بشانہ رہے۔
باکو خان کی اولاد ضلع بونیر میں چار مختلف گاوؤں میں رہتی ہے، جن میں پنج تار مرکز ہے۔ چنگلئی، خانانو ڈھیرئی اور مرخنڑئی (مخرنڑئی) دیگر گاؤں ہیں۔ ضلع بونیر کے علاوہ صوابی میں بھی کچھ خاندان ایسے ہیں جو باکو خان بابا کی اولاد ہیں۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے سواڑی روڈ کے راستے ”پنجتار“ تک 111.5 کلومیٹر کا راستہ ہے، جسے بآسانی تین گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ سڑک تقریباً پوری کی پوری پختہ ہے، بس پنجتار پہنچنے سے پہلے اک آدھ کلومیٹر پر مشتمل ٹکڑا خستہ حالی کا شکا ر ہے۔
”بونیر خدوخیل، تاریخی، تحقیقی اور ثقافتی جائزہ“ کے صفحہ نمبر 215 پر ایک ٹپہ بھی اس تاریخی گاؤں کے حوالہ سے رقم ہے، جس کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
ھلکہ روغ بہ لیونے شی
کہ د پنجتار مازیگرے دی ولیدو نہ

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں