ایڈووکیٹ نصیراللہ خانکالم

کرونا کا دوسرا مرحلہ

مہذب دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک، ڈبلیو ایچ او کی طرف سے فراہم کردہ گائیڈ لائن کے مطابق روزمرہ کی زندگی گذارنے پر عمل پیرا ہیں۔ وہاں سوشل ڈسٹنسنگ کا دائرہ کار نہ صرف رہائشی گھروں، مارکیٹوں، جوڈیشری، ہوٹلوں، کارخانوں وغیرہ تک محدود ہے، بلکہ نظامِ انصاف اور سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس کا نمونہ ویڈیو کانفرنسنگ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر بنظرِ عمیق دیکھا جائے، تو یہ واضح ہو جائے گا کہ حکومت کے علاوہ عام شہری بھی سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل پیرا ہیں۔ جہاں کہیں بھی عوام کا ہجوم پایا جاتا ہے، وہاں پر لوگوں نے حفاظتی ماسک لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ حکمران بھی میٹنگ کے دوران ماسک لگائے بیٹھے ہیں۔ وہاں لاک ڈاؤن پر بھرپور طور پر عمل کیا گیا، اور اب بھی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ گائیڈ لائن پر لوگ عمل کرتے ہیں۔ جوڈیشری کے لئے ویڈیو کانفرنسنگ کے قوانین بن رہے ہیں۔ عام لوگوں اور معیشت کے لیے ایس او پیز بنائے گئے ہیں۔ اس مد میں حکمران حکومتی امور سنبھالتے ہیں، اوروقت کے ساتھ ساتھ قانون سازادارے جو قانون لوگوں کے لیے بناتے ہیں،خود اس پر سب سے پہلے عمل کرتے ہیں۔ وہاں قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ حکمران اس کو اپنی ذاتی شخصیت اورکردارسے ثابت کرتے ہیں۔ اس میں کسی کو امتیازحاصل نہیں ہوتا۔ بے پروائی اور لاقانونیت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔  وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ وہاں کے باشعور عوام  اور بیدار اور مستعد میڈیا کی نظر قانون اور حکمرانوں کے عمل وکردار پر ہوتی ہے کہ کس طرح اس پر بہترین طریقہ سے عمل کیا اور کروایا جا ئے۔
چوں کہ کورونا ایک عالمی مسئلہ ہے اور سارے ممالک اس سے متاثر ہیں، اس لیے اس کے اثرات کسی ایک ملک کے بارڈر تک محدود نہیں، بلکہ اس نے تمام ممالک کو متاثر کیا ہوا ہے۔ دنیا میں کورونا پر جہاں کہیں بھی بہترین تجربات ہوئے ہیں، دوسرے ممالک میں اس سے استفادہ کرنا بہترین عمل تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم جہاں تک میں سمجھا ہوں، کورونا کی وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ یعنی کم سے کم دو میٹر تک دوسرے فرد سے فاصلہ، عوامی ہجوم سے کنارہ کشی اور بہ امر مجبوری حفاظتی ماسک پہن کر جانا، ہاتھوں کو صابن سے دھونا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی طریقہ کار دیا گیا ہے جیسے ناک، آنکھ اور منھ کو ہاتھ نہ لگانا وغیرہ۔ اس کے علاوہ گرم پانی کا بھاپ لینا، قوتِ مدافعت کو بڑھاوا دینے کے لیے متوازن غذا لینا، روزانہ ورزش کرنا وغیرہ شامل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا واپس لوٹنے کے لیے نہیں آئی۔ اس لیے جب تک  دنیا ہے، یہ وائرس موجود رہے گا۔ انسانوں کو اس کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ سیکھنا ہوگا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ جلد یا بدیر سائنس دان اس کے خلاف جسمانی قوتِ مدافعت کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی ویکسین بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ تاہم عالمی طور پر کل وقتی اقدامات سے غیر یقینی صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس وقت تک جب تک ویکسین نہیں بنائی جاتی، تمام ممالک کے بارڈر ہرقسم معیشت کے لیے تقریباً بند رہیں گے۔ فارنرز کو صرف اجازت ہوگی کہ وہ اپنے اپنے ممالک جاسکیں۔ اس لیے اب تمام ممالک اپنی معیشت پر فوکس کر رہے ہیں، اور اس کو مضبوط کر نے کے قرینے سوچ رہے ہیں۔
اس صورتحال  میں پاکستان کو بھی اپنی بہتر معیشت اور گورننس پر فوکس کرنا چاہیے۔ ریاست کی قوت نافذہ اپنے قانون و انصاف کو لاگو کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جہاں قانون کی عمل داری نہیں ہوتی، وہاں صرف جنگل کا قانون ہوتا ہے۔ قانون کی قوتِ نافذہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں ریاستی قانون کی پابندی کے لیے کوئی احساس نہیں ہوتا۔ عوام سمجھتے ہیں کہ حکمران ان کے مسائل سمجھنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے متبادل کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔ ریاست صرف رعایا نہیں ہوتی، بلکہ اس میں سرکاری اہلکاران اور ادارے بھی ہوتے ہیں، جو عوام کے ٹیکسوں پرعیاشی کرتے ہوئے تنخواہیں لیتے رہتے ہیں۔
مَیں یہ نہیں سمجھتا کہ ہر وقت لاک ڈاؤن کیا جائے۔ لاک ڈاؤن مسائل کا حل نہیں۔ ہمارے عوام،ملکی معیشت اور نظامِ انصاف اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہیں۔ نظامِ انصاف کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ بچوں کے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند ہوچکی ہیں۔ لوگوں کے معاشی اور عائلی مسائل روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ صحت کے مسائل مزید گھمبیر ہوگئے ہیں، لیکن حکومت کا سارا فوکس صرف کورونا پر مرکوز ہوکر رہ گیا ہے۔ ہسپتالوں میں لوگ جانے سے گھبرائے ہوئے ہیں، جس سے روزانہ اموات کی شرح زیادہ ہوچکی ہے، تو دوسری طرف امراض اوردوائیوں پر استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قرضہ لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے، تو کورونا کے مریض 60 ہزارسے تجاوز کرگئے ہیں۔ کورونا سے اموا ت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کا ہجوم بازاروں، مساجد، پارکوں اور مارکیٹوں میں بڑھ رہا ہے۔ کوئی اس کو مذاق سمجھ رہا ہے، تو کوئی ایس او پیز پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن کا ایک مرحلہ گذر چکا۔ اب مزید اگر حکومت یہی سمجھتی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن ہی اس کامؤثر حل ہے، تو اس پر عمل کروانے کی ذمہ داری حکومت اور ”لا  انفورسمنٹ ایجنسیز“ کے کندھوں پر ہوگی۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہسپتالوں کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ آئیسولیشن وارڈز میں حفاظتی آلات نہ ہونے کی وجہ سرکاری ہسپتال کھنڈرات بن چکے ہیں۔ دوسرے امراض کے لیے کسی پرائیویٹ ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے کسی بھی اسپتال میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کے لیے مزید گنجائش نہیں۔ ہسپتالوں میں انتظامیہ مریضوں کو لینے سے انکاری ہے۔ اس کے علاوہ بہتر نگہداشت اور علاج معالجہ کی سہولت نا پید ہے۔ لوگوں کو ہسپتالوں کے آئی سولیشن وارڈز میں پھینک کر دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اور نرس موجود ہیں اور نہ مریض کے عزیز و اقارب، عجیب صورتحال ہے۔ چوں کہ ڈاکٹروں کے پاس بھی حفاظتی لباس اور آلات نہیں، اس لیے وہ بھی مریض کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔
مَیں یہ نہیں کہتا کہ ہماری ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک کے ساتھ کوئی مسابقت کی دوڑ لگی ہے، بلکہ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت اگر عام لوگ دوبارہ لاک ڈاؤن پر مجبور ہوتے ہیں، اور ان کی روزی روٹی ان پر تنگ کر دی جاتی ہے ہے، مہینوں عوام کو گھروں میں قید کر دیا جاتا ہے، بچوں کی پڑھائی میں حرج ڈالا جاتا ہے، کارخانہ داروں سے لے کر ریڑھی بانوں تک سے روزگار چھین لیا جاتا ہے، تو اس صورتِ حال میں یہی انصاف ہوگا کہ ہمارے اداروں اورسروس سکیٹر میں جتنے بھی افراد نوکری کرتے ہیں، انہیں بھی اپنی سروس اور تنخواہوں سے دست بردار کروایا جاتا۔ عوام سروس کیڈر اور حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھی اشرافیہ کی تنخواہ نہ دینے کی نظیر دیکھ کرعوام سمجھ لیتے کہ چلو ملک کے سب لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو رہا ہے۔
ممکنہ دوسرے مرحلے کے لاک ڈاؤن میں سروس مین کی دو مہینے کی تنخواہیں کاٹ کر عوام یا جس طرح کی بھی اشد ضرورت  ہو، ان امورپر لگا دی جائیں۔ کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ اس اشرافیہ نے ساری عمر حکومتِ پاکستان سے بھاری بھرکم تنخواہیں لی ہیں۔ بہترین بنگلوں، موٹر کاروں اور گھروں میں عوام کے ٹیکسوں اورسرکار کی کی آمدن پر عیاشی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں، غریبوں پر مزیدتنگی لانے سے ملکِ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔ دوسرے ملکوں کے تجربات سے سیکھنا ہوگا۔ ان ممالک اور اپنے ملکی نظامِ انصاف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انصاف کی ترسیل کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ پاکستان میں یہ ناممکنات میں سے نہیں۔ یہاں پر بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سکول،کالج اور یونیورسٹیوں اور نظام انصاف کو چلایا جاسکتا ہے۔ عوامی شعور کے پیدا کرنے کا عمل بھی اس وبائی صورتحال میں مزید نکھر کر مستحکم ہو سکتا ہے۔ارطغرل جیسے ڈراموں سے قومیں نہیں بنتیں۔ قومیں عمل سے بنتی ہیں۔ نان ایشوز کی سیاست ملک کو دلدل کی طرف دھکیل رہی ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں اگر بالا دست ادارے اورشخصیات خود قانون پر عمل کریں۔ تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بس عمل کرنے کی دیر ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں