فضل محمود روخانکالم

 شاہ ولی خان المعروف سیدو وال

وہ میرا ہم عمر ہے لیکن اپنے بڑے بھائی حکیم خان سے 12سال چھوٹا ہے۔ حکیم خان کو اپنے سسر سیلانی نے جانو لنگر خوازہ خیلہ میں کریانے کی دکان لے کر دی تھی۔ تو یہ اپنے بڑے بھائی کے کہنے پر سیدوشریف سے خوازہ خیلہ چلا گیا اور لنگر میں اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ بٹانے لگا۔
شاہ ولی خان عرف سیدووال کو بچپن میں لکھنے کا بڑا شوق تھا۔ جہاں بھی اس کو لکھنے کا موقعہ ملتا تو چاک، کوئلے، چاقو یا عام قلم سے لکھنے بیٹھ جاتا۔ گھر کے برتنوں پر چاقو کی نوک سے لکھا کرتا۔ اس کے گھر میں جو بھی سلور کے برتن تھے، سب پر اس نے لکھائی کررکھی تھی۔
ہوا یوں کہ ایک دن اس کے بھائی حکیم خان نے صرف اتنا کہا تھا کہ غمی خوشی میں اڑوس پڑوس میں ہمارے گھر کے جو برتن جاتے ہیں، وہ بعد میں کسی اور کے گھرغلطی سے چلے جاتے ہیں۔ بدلے میں کسی اور کے برتن ہمارے گھر آجاتے ہیں۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ ان برتنوں پر ہمارے گھر کا کوئی نشان ہو، تاکہ بعد میں ہمیں ہمارے اپنے برتن واپس مل سکیں۔ بس پھر کیا تھا، سیدو وال کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا جس سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ یہ لکھنے کے بعد اپنا نام بھی لکھا کرتا تھا۔ اس وجہ سے اس کے گھر والوں کو پتا چلا کہ یہ سب کچھ شاہ ولی خان کے ہاتھ کے فن پارے ہیں۔
شاہ ولی خان جب سیدوشریف میں اپنے والدین کے ہاں رہا کرتا تھا، تو دوسرے لڑکوں کے ساتھ یہ سیدو پہاڑ سے سوختنی لکڑیاں بھی لاتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک دن میں ایک پودا کاٹ رہا تھا کہ ایک ریچھ مجھ پر حملہ آور ہونے کے لیے میری جانب بڑھا۔ میری نظر اُس پر پڑی، تو اپنے بچاؤ کی خاطر کاٹا ہوا پودا ریچھ کے جانب پھینکا، تو اُس پودے میں سے سانپ نکل آیا جو ریچھ کے جانب بڑھنے لگا۔ اب ریچھ نے جو سانپ دیکھا، تو اُس کے اوسان خطا ہوگئے اورپیچھے کی جانب دوڑنے لگا۔ یوں اللہ تعالا نے میری جان بچائی۔ گو کہ اس سے پہلے میں نے کاٹے ہوئے پودے میں سانپ نہیں دیکھا تھا۔
ایک دوسرے واقعہ کا ذکر وہ کچھ یوں کررہا تھا کہ ایک دفعہ سیدو شریف کی پہاڑی میں لکڑی کاٹ رہا تھا کہ ایک ڈھلوان سے ایک ریچھ میری جانب بڑھنے لگا۔ عین اُس وقت ایک شیر کے غرانے کی آواز آئی۔ ریچھ شیر کی آواز سے ڈر کر پیچھے ہٹ کر چلا گیا۔ اس پر مَیں نے سیدو وال کو کہا کہ ان دونوں واقعوں سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ ایک غیبی طاقت عین موقعہ پر تمہیں بچا رہی تھی۔
قارئین، جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کو لکھنے کی عادت پڑگئی تھی۔ سیدو وال کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں سیدوشریف گاؤں کے مکانات گارے اور پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔ اس لیے مجھے لکھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ مَیں نے بادشاہ صاحب کے محل کا رُخ کیا اور وہاں دیواروں پر کوئلے کی مدد سے لکھنے لگا۔ ایک دفعہ مَیں نے بادشاہ صاحب کی خاص مسجد کے محراب کی سجدے والی جگہ پر ’’اللہ اکبر‘‘ لکھ کر گھر چلا آیا کہ بعد میں ایک اردلی نے مجھے بادشاہ صاحب کے روبرو کھڑا کیا۔ بادشاہ صاحب نے مجھے کہا کہ ’’لڑکے یہ تم نے لکھا ہے؟‘‘ مَیں نے کہا کہ ’’باچا صاحب مَیں نے اللہ اکبر لکھا ہے۔‘‘ بادشاہ صاحب نے کہا: ’’تم نے اچھا لکھا ہے لیکن اس جگہ یہ لکھنا نہیں چاہیے تھا۔‘‘
کہتے ہیں کہ جب میری پیشی ہورہی تھی، تو مجھے دیکھ کر بادشاہ صاحب نے میرے والد کے نام کے ساتھ مجھے مخاطب کیا کہ فلاں کے بیٹے کو کچھ دے کر اسے واپس گھر پہنچادو۔
کہتے ہیں کہ بادشاہ صاحب کے محل میں سیب کے ڈھیر سارے درخت تھے۔ مَیں نے ایک سیب کے درخت کو اپنے لیے چنا اور اس کے ارد گرد کانٹے والی جھاڑی لگا دی۔ بعد میں جب بادشاہ صاحب کی نظر اس جھاڑی پر پڑی، تو مجھے پھر طلب کیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کانٹے والی جھاڑی تم نے لگائی ہے؟ مَیں نے کہا، ’’بابا صاحب ہاں!‘‘ انہوں نے پوچھا کہ یہ تمہارا درخت ہے؟ مَیں نے کہا: ’’نہیں!‘‘ تو انہوں نے پھر پوچھا، پھر تم نے کیوں ایسا کیا ہے؟ مَیں نے کہا، ’’بابا صاحب! لڑکے کچا پھل توڑ کر کھا لیتے ہیں۔ مَیں نے سوچا کہ جھاڑی لگا کر اول پھل کو پکنے تو دوں۔‘‘ بادشاہ صاحب نے کہا کہ اچھا جب اس درخت کا پھل پک جائے، تو انہیں اپنے گھر لے جانا۔
سیدو وال کہتے ہیں کہ ہم سیدوشریف کے بچے بادشاہ صاحب کو ’’بابا صاحب‘‘ کہا کرتے تھے۔ اُن کے محل میں ہمارے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوا کرتی تھی۔
سیدو وال نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ جرمنی جانے کا قصد بھی کیا۔ پیدل چل کر یہ ایران سے عراق داخل ہوئے۔ اس موقعہ پر ان کے کھانے کے چنے ختم ہوگئے تھے۔ انہوں نے ایک چرواہے کی لڑکی سے کھانا مانگا۔ قریب ہی لڑکی کا گھر تھا۔ لڑکی ان کو اپنے گھر لے گئی۔ کھانا کھلایا۔ گھر میں اس کا والد بھی تھا۔ انہوں نے وائرلیس پر کسی سے گفتگو کی۔ بعد میں عراق کے چند فوجی گاڑی میں آئے اور ہمیں گرفتار کرکے قاضی کے پاس لے گئے۔ عدالت میں انہوں نے قاضی کو کہا کہ ہم جرمنی جانا چاہتے ہیں اور ہمارا عراق میں ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس لیے ہمیں جانے دیا جائے، یا ہمیں سعودی عرب جانے دیا جائے۔ قاضی نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ہم تمہیں واپس کردیں گے۔ جواباً ہم نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ اس لیے ہمیں بغداد کی جیل میں ڈال دیا گیا۔ 6 مہینے بعد ہمیں پھر عدالت لے جایا گیا۔ قاضی صاحب نے کہا کہ ’’دیکھو لڑکو! تم اپنا وقت یوں ہی برباد کررہے ہو۔ اپنے ملک جاکر پاسپورٹ پر ویزا لگا کر قانونی طریقے سے جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ، لیکن غیر قانونی طور پر ہم تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر تم انکار کرتے ہو، تو ہم تمہیں پھر جیل میں ڈالیں گے۔‘‘ چار و ناچار ہم نے اُن کی بات مان لی۔ انہوں نے ہمیں نئے کپڑے اور پیسے دیے۔ ریل میں بٹھا کر عراق سے رخصت کیا۔ ایران کے زاہدان اسٹیشن پر ہم نے کچھ خریداری کی۔ بعد میں ہم پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ جب ہم کوئٹہ پہنچ گئے، تو ہم نے آگے چلنے سے انکار کیا، یوں اُن کے آدمی ہمیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
بعد میں کوئٹہ کے ایک کپڑے کے مل میں سیدو وال کو کلرکی مل گئی اور دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی ملازمت مل گئی۔ یوں پورے 9 سال انہوں نے اُس مل ملازمت کی۔ بعد میں وہ کراچی چلے گئے۔ ایک سال انہوں نے مشرقی پاکستان میں ملازمت کی۔ باقی عمر انہوں نے کراچی میں گزاری۔ اب سیدو وال کئی سالوں سے سیدوشریف میں رہ رہا ہے اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
شاہ ولی خان عرف سیدووال ادیب، شاعر اور کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ وہ بہترین خوش نویس بھی ہے۔ اور کیوں نہ ہو، اُس کو جو لکھنے کی لت پڑگئی تھی۔ اس عادت نے اُن کو ایک بڑا آدمی بنادیا ہے۔ کراچی میں اُن کا پیشہ فنِ کتابت اور خوش نویسی تھا۔
سیدو وال نفیس شخصیت کا مالک ہے۔ اُس کی باتوں میں ٹھہراؤ ہے۔ اُس کے اٹھنے، بیٹھنے میں ایک سلیقہ ہے اور کیوں نہ ہو جو اپنی تحریروں کو خوبصورتی کا جامہ پہنانے کا ہنر جانتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں